گہرام اسلم بلوچ
زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح شعبہ صحافت بھی ایک اہم شعبہ ہے جدید دور میں صحافت ریاست کی ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ وہ الگ بحث ہے کہ اس شعبےکے لوگوں نے خود اسکو اہمیت نہیں دی ہر وقت بجائے سماج کے اصل مسائل کو اجاگر کرنے کے حاکم وقت کے ترجمان بنے بھیٹے ہیں۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسوقت ملک بھر میں میڈیا ورکرز کو شدید خطرہ ہے وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر خبر کی تلاش کےلیےنکلتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے صوبہ بلوچستان ایک شورش زدہ علاقہ ہے جہاں بھی صحافی بے سرو سامانی کے عالم میں اپنی رسک میں اس میدان میں اپنی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
سماج میں مرد و خواتین کا سماجی تعمیر میں ایک کلیدی کردار ہوتا ہے ۔ بلوچستان میں باقی شعبوں کی طرح شعبہ صحافت میں خواتین کیوں اس شعبے میں کم آتی ہیں یا بلکل نہیں آتی ہیں ۔ حالانکہ سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ پہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عورت کی اس میدان میں بے شمار صلاحیتیں پائی جاتی ہیں وہ کونسی وجوہات ہیں کہ خواتین مین اسٹریم :/ فیلڈ میں نہیں آنا چاہتی ہیں ؟ اگر ہیں تو بھی بہت ہی محدود پیمانے پر ہیں۔ اسوقت بلوچستان کے دو بڑے پبلک جامعات میں شعبہ ابلاغیات کا شعبہ ہے جامعہ بلوچستان اور سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی میں مگر پھر اس شعبے میں خواتین کی شراکت تسلی بخش نظر نہیں آرہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے میں ہرطرح کے مسائل روزانہ کی بنیاد پر پیش آتے ہیں اور بہت سارے مسائل خواتین کے ساتھ بھی پیش آجاتی ہیں مگر وہ میڈیا پہ اس لیے نہیں آتے کہ انکو رپورٹ کرنے والے خواتین نہیں ۔ وہ خواتین کے ساتھ زیادہ ایزی محسوس کرتی ہیں ۔
اس سلسلے میں میں نے بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے میڈیا اینڈ جرنلزم کے چئیرمین جناب پروفیسر ڈاکٹر فہیم بلوچ سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں سالانہ دس ، 10، 12 بارہ کے قریب ( فیمیل اسٹوڈنٹس ) ماسٹر کر کہ پاس آؤٹ ہوجاتی ہیں ، زیادہ تر طالبات کو عملی صحافت کے میدان میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ دوئم یہ کہ اوقات اور کافی نقل و حرکت کا مسئلہ انہیں صحافت میں آنے سے روکتی ہے پھر کام کی جگہ کے مسائل موجود ہیں اس طرح کے کچھ مسائل ہیں کہ وہ فیلڈ میں کم آجاتی ہیں ۔ اس بارے میں عورت کا ہمیشہ یہی جائز تحفظات سامنے آجاتے ہیں کہ دوران فیلڈ یا ڈسک میں کام کرانے کے دوران انکی سُپروائز ایڈیٹرز مرد ہوتے ہیں انکے ساتھ کام کرنے میں ایک قبائل سماج کے اندر مشکل ہے ۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ پریس کلب کے جنرل سیکریٹری اور روزنامہ آزادی سے وابستہ سینئر صحافی ظفر بلوچ سے یہ سن کر حیران ہوگیا کہ انکے مطابق اسوقت کوئٹہ پریس کلب میں صرف دو ہی خواتین ممبر ہیں اور فیلڈ میں صر ف پانچ خواتین خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔چوانکہ وہ خود میڈیا ہاؤس روزنامہ آزادی کوئٹہ کے مالکان میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے بھی اس بات کی اعتراف کہ انکے اخبار میں اس وقت ڈسک پہ کوئی فیمیل صحافی کام نہیں کررہی۔اور دوسری جانب روزنامہ انتخاب نیوزپیپر کے ڈسک سے رابطہ کی تو نوجوان صحافی جیہند ساجدی بلوچ نے کہا روازنامہ انتخاب میں بھی ڈسک پہ کوئی خواتین جرنلسٹ کام نہیں کر رہی ہے۔
اس بارے میں تربت سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی روزنامہ آزادی اور تربت پریس کلب سے وابستہ اسد اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ علاقائی صحافت میں یہ اپنی نوعیت کا ایک اہم مسلہ ہے ۔ تربت میں ہم نے ایک دو مرتبہ اس شعبے میں خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی مگر خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی اسکی ۔ تربت پریس کلب میں کوئی خواتین جرنلسٹ وابستہ نہیں ہے ۔بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں، یہاں کی سماجی و قبائلی نظام سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ خصوصا ورکنگ فیمیل جرنلسٹ کے لیئے کیونکہ اسے فیلڈ میں کام کے دوران ایک وقت میں کئی ایونٹس کو کوریج دینے کے لیے مختلف مقامات پر جانا پڑتا ہے، اس سماج کا ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ اتنا روشن خیال سماج نہیں کہ وہ وہ خواتین کے متعلق اتنا کچھ سہہ سکے۔ اس پہ طرح طرح کے الزامات لگنے کے امکانات اپنی جگہ خاندان کی طرف سے بھی بڑی رکاوٹیں عائل ہوسکتی ہیں۔
اس متعلق اسد بلوچ مزید کہتے ہیں کہ دوسری اہم وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مرد کی طرح کوئی بھی عورت سواری کے بغیر فیلڈ میں نہیں جاسکتی ، جبکہ مرد کسی بھی وقت کسی سے لفٹ لے کر کسی بھی پروگرام کو کور کرسکتا ہے اس کے برعکس عورت یہ سب کچھ نہیں کرسکتی۔ اس بارے میں سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ میڈیا مالکان اپنے صحافتی کارکناں کو ضروریات کے مطابق نہ اچھی تنخواہ دےسکتی ہے اور نہ ہی الاؤنس اس کے باوجود مرد ورکنگ جرنلسٹ اپنی جان کو ہتھیلی پہ رکھ کر خبر کی تلاش کے لیے نکلتا ہے۔ بغیر سہولیات اور سیکوریٹی کے عورت فیلڈ میں کام کرنے کی متعمل نہیں ہوسکتی۔
اس سلسلے میں ہم نے سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کوئٹہ کے ایک طالبہ اور ( نیا دور)ڈیجیٹل میڈیا گروپ سے وابستہ محترمہ نعمیہ زہری بلوچ کہتی ہیں
موجودہ صدی میں جہاں ٹیکنالوجی نے ترقی پائی ہے تو وہاں جدیدیت کو ہر شعبے نے اپنی کامیابی کے لئے اول شرائط میں شمار کیا ہے
جدیدیت اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے قبل خبریں، تجزیہ، شمارے، تحریری، اور کالمز وغیرہ سچ اور حقائق پر مبنی تھے جیسے جیسے ترقی ملتی گئی زرائع ابلاغ کے مالکان میں جیت اور سنسنی کا مقابلہ بڑھ کر میڈیا انڈسٹری تک اپنی جڑیں بنالی جس کی وجہ سے خبریں اخبارات و جریدوں سے نکل کر اسکرین تک پہنچ گئی اور اسکرین کی ترقی ناظرین کی دل چسپیوں سے تعلق رکھتا تھا پھر میڈیا انڈسٹری نے نئے سے نئے پروگراموں کا آغاز کیا جہاں خواتین کو بطور مہرہ اشتہارات کی تشہیر اور خبروں کی تفصیلات تک استعمال کیا گیا جہاں سے شعبہ صحافت میں تہذیبی اقدار کا خیال نہیں رکھا گیا
جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی خواتین کو شعبہ صحافت سے دور رکھنا چاہتا ہے بلخصوص قبائلی سوچ میں اس کی گنجائش بہت کم ہے۔
بلوچستان میں خواتین کے لیے صحافت کی دنیا میں آگے بڑھنا اس قدر مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ آن لائن اور آف لائن، دونوں صورتوں میں انہیں صنفی تفریق کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں ان کے کام کی بجائے لباس اور چال ڈھال کے حوالوں سے پرکھا جاتا ہے۔۔میرے سوچ کے مطابق صحافت میں خواتین کو باز اوقات ہمارا معاشرہ نہیں چھوڑا باز اوقات قبائلی نظام، والد، چچا اور خاندان کا سخت ہونا اور اسکے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انکو مردوں کے بجائے خواتین کیساتھ کام کرنے میں آسانی ہو بلوچستان میں کسی نیوز چینل کا بیوروچیف یا کسی اخبار کا ایڈیٹر خاتون ہو تو شاید وہ اپنی خدمات سرانجام دے سکیں۔
بلوچستان کی بات سامنے آتی ہے تو میں پہلے تعلیمی اداروں کو دیکھتا ہوں۔ بلوچستان میں ایک ہی جنرل یونیورسٹی ، جامعہ بلوچستان ہے جس میں صحافت کا شعبہ برائے نام ہے ، خاص کر خواتین کے لئے SBK ہے جس میں صحافت کا شعبہ محض تدریسی فرائض کو سر انجام دینے کے لئے اور طالبہ سے بھاری فیسیں وصول کرنے کے لیے ہے، گوکہ ان جامعات میں قابلِ استاتذہ ہیں لیکن ان کو سہولیات کیا فراہم کیا جا رہا ہے قابلِ غور ہے۔ تعلیمی اداروں کو زیر بحث لانے کا مقصد دیکھنا چاہیے کہ ان جامعات میں شعبہ صحافت کے لئے کیا کیا سہولیات موجود ہیں کیا ان کو ریڈیو، ٹی وی چینل سمیت دیگر ذرائع ابلاغ کے لئے پریڈ کے بعد کوئی پریکٹیکل سہولت موجود ہے اگر موجود ہے تو معیاری ہے اور طالبہ کے زیر استعمال میں ہے؟
دوسری بات اس سوال کو قبائلی / پدر شاہانہ طرز سے دیکھنا ضروری ہے۔جیساکہ آپ جانتی ہے کہ یہ معاشرہ صدیوں سے پدر شاہانہ گرفت میں جکڑا ہوا ہے جہاں ہر جگہ مرد کی اجارہ داری قائم ہے خواں وہ صحافت کا شعبہ ہو، سیاست ہو یا کہ زندگی کے دیگر شعبہ جات خواتین کو محض گھر میں چار دیواری میں قید و بند دیکھنا چاہتے ہیں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ خواتین کو بھی آگے لانے کے لیے تعلیم دیا جائے تاکہ خواتین بھی مردوں کے مقابلے میں شعبہ صحافت سمیت دیگر شعبہ جات میں برابر شریک ہوکر معاشرے کی بھلائی کے لئے کوشاں رہیں۔
صحافت کے پیشے میں میڈیا انڈسٹری بھی برابر کا قصوروار ہے جس میں چند لوگوں کی اجارہ داری قائم ہیں وہ جس کو چاہے فیلڈ سے متعلق اٹیچمنٹ پہ رکھ لیں اور جس کو چاہے نکال دیں یا پھر اس شعبے میں آنے کا موقع ہی نہ دیں اس کے پیچھے بھی کئی وجوہات ہیں جیساکہ، مذہب، فرقہ، قوم، قبیلہ، زبان اور ثقافت وغیرہ۔
لیکن یہ بھی انتہائی قابلِ غور بات ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی کا بڑا ایشو ہے جس سے خواتین خود کو سیف محسوس نہیں کرتیں ، صحافت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان وجوہات کی بناء پر پروفیشنل ازم سے دور ہو جاتی ہے تاکہ ان کو یا ان کے گھر والوں کو کسی بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔صحافت کی ڈگری حاصل کرنا آسان ہے لیکن پریکٹیکل ہونا مشکل ہو جاتا ہے جس میں تعلیمی اداروں کی نااہلی سہرفرست ہے۔ دوران ڈگری یا ڈگری کے بعد ایسا کوئی ورکشاپ، سیمینار وغیرہ دیکھنے کو نہیں ملتے جس سے خواتین اس شعبے میں مہارت رکھنے سے قاصر ہیں یہ زمہ داری ریاست کی کہ عام عوام کو سہولیات فراہم کریں تاکہ خواتین فیلڈ سے متعلق آسانی سے چیزوں کو سمجھ کر پروفیشنل بن جائیں
Courtesy: Center for Research & Security Studies (CRSS)