چینی ، بھارتی اور پاکستانی رہنما ؛ وہ کہاں ہم کہاں ؟

0
چینی ، بھارتی اور پاکستانی رہنما ؛ وہ کہاں ہم کہاں ؟

صدر آصف علی زرداری نے پجھلے دنوں چین کا ایک بہت ہی بھر پور دورہ کیا، جہاں ان کی ملاقات چینی صدر شی جن پنگ سمیت بہت سے اکابرین سے ہوئی، چینی صدر نے آصف علی زرداری کو چین میں سرمائی کھیلوں کے افتتاح کے موقع پر دورے کی دعوت دی تھی۔ دورے کے دوران صدر زرداری کے ساتھ سی جی ٹی این پر ایک خصوصی انٹرویو کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں بد قسمتی سے زرداری صاحب سے کئی موقعوں پر سوال کچھ کیا گیا جس کا جواب کچھ دیا گیا۔

 صدر آصف علی زرداری سے جب سرد موسم کے بارےمیں پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ اگر چین مجھے بُلائے اور یہاں منفی 40 ڈگری ہو تو پھر بھی میں آوں گا۔ اُن کا یہ میزبان کے لیۓ ایک غیر متوقع جواب تھا اور ہم سب کے لیۓ یقیناً سُبکی اور شرمندگی کا باعث۔

دوسرا سوال چین اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلقات کے بارے میں تھا کہ تین الفاظ میں آپ انہیں کس طرح بیان کریں گے؟

انسانیت، اعتماد اور اعتماد اور اس پر مزید گرہ لگائی کے چینی بڑے انسان ہیں، وہ کبھی بھی “غیر انسانی” نہیں رہے۔ اور ہمارا نسل در نسل اُن کے ساتھ تعلق ہے۔

اور پھر ہنستے ہوئے پوچھا کہ تم مجھے بتاؤ؟

 3 بڑے اقدامات (عالمی ترقی، سلامتی اور تہذیب) کے بارےمیں ایک سوال پر، وہ سٹپٹائے ہوئے نظر آئے اور کچھ جواب بن نہ پایا تو موہنجوڈارو  اور ہڑپہ کا حوالہ دیا یعنی ایک بار پھر سوال گندم اور جواب چنا۔

اسی طرح مشترکہ خلائی پروگراموں کی تزویراتی اہمیت کے بارے میں وہ کہتےہیں “اگر میرا بھائی کامیاب ہو گیا تو کم از کم وہ گھر تو ٹھیک کردے گا جس میں میں بھی رہتا ہوں”۔

میزبان اسے درست کرنے کا ایک اور موقع فراہم کرتی ہے تو اور بھی زیادہ  مضحکہ خیز  جواب ملتا ہے۔

ماؤزے تنگ کے بعد شی جن پنگ عوامی جمہوریہ چین کی تاریخ میں سب سے مضبوط رہنما کے طور پر ابھرے اور ان کے ملک کا نہ صرف عالمی وقار میں تیزی سے اضافہ ہوا بلکہ ایک عالمی تجارتی شراکت دار کے طور پر بھی چین کی اہمیت تسلیم کی گئی۔

شی  نے  اجتماعی ذمہ داری سب کے لیے سلامتی اور دیگر اقوام کےساتھ ترقی کے ثمرات بانٹنے کے یقین کے ساتھ دنیا کے لیے اپنےوژن کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کا بھی لوہا منوایا۔

پارٹی نے انہیں ‘ہیکسین’ کےبہترین لیڈروں کے طور پر نامزد کیا۔ ماؤ زیڈونگ، ڈینگ ژیاؤپنگ، اورجیانگ زیمن۔

 لیکن صدر  شی نے کمیونسٹ پارٹی کے جھنڈے تلے سفر کرتے ہوئے چین کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ وہ بلاشبہ ایک باوقار عالمی قائد کا روپ دھار چکے ہیں اور دڈونلڈ ٹرمپ بھی ان کے مداح ہیں۔

گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو (جی ایس آئی)، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشیٹو (جی ڈی آئی)، اور گلوبل سولائزیشن انیشیٹو (جی سی آئی) چین کی سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی ورثہ کی بھرپورنمائندگی کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اسی سوچ کا غماز ہے۔

صدر  شی جن پنگ نے اپنے دور حکومت میں چیرمین ماؤ کی سوچ کے مطابق چین میں غربت اور کرپشن کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کی تنظیمِ نو پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے دُنیا میں کامیابی در کامیابی کے جھنڈے گاڑے جو کامل یکسوئی اور طویل جدوجہد کانتیجہ ہے۔

 چینی مفکر کنفیوشس لیڈر کو کشتی اور لوگوں کو پانی قرار دیتا ہے یعنی پانی کے بغیر کشتی چل نہیں سکتی اور پانی ہی کشتی کو ڈبو سکتا ہے۔ پانی ہی کشتی کو سہارا دیتا ہے اور گرا بھی سکتا ہے۔

چیئرمین ماؤزے تنگ نے کنفیوشس کے مقولہ میں تبدیلی کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی کو مچھلی اور عوام کو پانی قرار دیا اور یہ واضح کیا کہ مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔

چیئرمین ماؤ کے اس فلسفہ کو  ملک و قوم کی بقاء، استحکام اور کامیابی کا زینہ سمجھتے ہوئے صدر ژی ایک نئے عزم و جذبہ کے ساتھ گامزن ہوئے اور چین کو ایک بڑی عالمی طاقت بنانے اور تسلیم کروانے میں سُرخ رو ہوئے جس کا آج پوری دُنیا کو اعتراف ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ماؤ نے شہریوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے بارے میں سوچا۔ ماؤ اور  شی دونوں قوم اور ملک کے بارے میں  ایک جیسی سوچ اور  ذمہ داری کااحساس رکھتے ہیں۔ اور یہ یقین کہ کمیونسٹ پارٹی کا بنیادی مقصد اقتصادی ترقی کےذریعے چینی عوام کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

ماؤ اور  شی دونوں مارکسزم اور چینی زمینی حقائق کے مطابق اپنی ترجیحات پر یقین رکھتے ہیں۔

چیئرمین ماؤ نے ایک بار کہا تھا، “چینی انقلاب کی قیادت چینی عوام کو کرنی چاہیے  اور انقلاب وہی لوگ لا سکتے ہیں جو مقامی تقاضوں اور ضروریات سے آگاہ ہوں۔

ہمیں مارکس (اور اس کا فلسفہ) یاد ہے اور ہم نے اسے چینی حقیقت کے ساتھ جوڑ کر اپنے  نظریہ (ترقی اور سیاسی تبدیلی) کے مطابق اپنایا” ۔ پیغام واضح تھا۔

چین مغربی نظریہ اور طرز حکمرانی اورمعیشت کے ماڈل کو چین کی سرزمین پر اپنا یا مسلط نہیں کر سکتا۔”ہم اپنی ضروریات کے مطابق اس میں ترمیم کریں گے مثال کے طورپر، مارکسزم منصوبہ بند معیشت کا مطالبہ کرتا ہے، ہم نے ایسا کیا لیکن آہستہ آہستہ احساس ہوا کہ یہ بہت موثر ہو رہی ہے اسلیے ہم نے اپنی معیشت کو کھول دیا،” چاو نے صدر شی کے حوالےسے کہا۔

اُنہوں نے گذشتہ بارہ برس میں کرپشن کے خاتمہ کے حوالہ سے بڑا کام کیا ہے اور اُن کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم بدعنوانی سے لڑیں گے تو پارٹی گرسکتی ہے لیکن اگر ہم نے کرپشن کے خلاف لڑائی نہ کی تو قوم گر جائے گی۔

 شی کہتے ہیں جیسا کہ بہت سے پرانے محافظوں کو یاد ہے، یہ صورتحال ان لاکھوں چینیوں کے لیے مایوس کن تھی جن کا خیال تھا کہ پارٹی پر ایک خصوصی کلب قابض ہے جو ان کے خون اور پسینہ پر،  کسی احتساب کے بغیر، پھل پھول رہا ہے، جس کی وجہ سے حکومت اور  خود پارٹی پر اعتماد کا واضح فقدان ہوا۔

اس لیے حیرت کی بات نہیں ہے کہ اگست 2018 میں چینی یومِ فوج کےموقع پر، ژی نے دو ملین مضبوط فوج کے اعلیٰ افسران کو دو ٹوک الفاظ میں  نوٹس دیا، اور اس پر زور دیا کہ وہ اپنی تجارتی سرگرمیوں کوکم کر دے یا مکمل طور پر سمیٹ لے۔

فوج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تمام کاروباری اور غیر پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے دستبردار ہوکر اور اپنے ماحول کو اپنے اہم مشن کے لیۓ سازگار بنانے، پاک کرنے اور جنگ کی تیاری جو اس کا اصل کام ہے، پر توجہ مرکوز کرے۔

ماؤ اور   شی کے درمیان تیسری مشترکہ بات، عوام سےمحبت ہے۔ اُنہیں عوام کی طاقت پر غیر متزلزل یقین ہے اور وہ عوامی اتحاد کو قومی سلامتی و کامیابی کی کلید سمجھتے ہیں۔

کسی بھی ادارے نے آج تک ماو، ڈینگ یا شی جن پنگ کو بدعنوان نہیں کہاُ اور نہ ہی ان میں سے کسی کے بھی بیرون ملک کوئی اثاثے  ہیں۔

کسی بھی ادارے نے ان پر ذاتی فائدے کے لیے اقتدار کا غلط استعمال یا  لوگوں کے پیسے چوری کرنے کا الزام نہیں لگایا۔

چین اور بھارت دونوں ہمارے بڑے ہمسائے ہیں اور ان دونوں ممالک میں ماؤ اور نہرو کی شخصیات اور اُن کی عوامی فکر اور فلاح و بہبود  کی گہری چھاپ ہے جبکہ ہمارے یہاں ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت کے باعث ذاتی مفادات اور بدعنوانیوں کی بھرمار ہے۔

شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ بابائے قوم نے اتحاد، یقین، نظم و ضبط کا درس کیوں دیا تھا اور اُن کے رُخصت ہوجانے کے بعد کسی مسلُم لیگی قائد نے اُن کے مشن کو سنبھالا کیوں نہیں دیا؟