لاہور میں خاتون ٹک ٹاکر سے بدتمیزی کیوں ہوئی ؟
Murad Akbar
تشویش تھی کہ شاید اب کی بار بھی وہی کچھ ہوگا۔ کابل، قندھار، مزار شریف،ہرات، قندوز، غزنی، جلال اباد اور پتہ نہیں کہاں کہاں، کیا کچھ ہوگا۔ عورتوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا، نوکری یا کاروبار کرنا تو درکنار باہر نکلنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ بدکاری کے الزام میں کسی کو بھی سرعام گولی یا کوڑے مارے جائیں گے اور بغیر داڑھی والے کی تو خیر نہیں ہوگی۔ موسیقی سننے اور بجانے والے کےلئے افغانستان کی سرزمیں جہنم بنادی جائے گی۔ غیر ملکی مال غنیمت تصور کئے جائیں گے اور عالمی طاقتوں کی باتوں کو ہوا میں اڑایا جائے گا۔ کچھ ہو نہ ہو اشرف غنی، حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمتیارکا انجام بھی نجیب اللہ والا ہی ہوگا۔ سٓرعام پھانسی اور پھر چوراہوں پر لاشیں لٹکنے کا منظر تو یقینی تھا۔ نوشتہ دیوار یہ تھا کہ ہم اور اپ افغان عوام کو نجات کی تلاش میں پریشان اور سرگرداں دیکھیں گے۔ اور تھوڑی دیر کیلئے ایسا ہوا بھی لیکن اب کی بارپہلے والا ہنگامہ نہیں تھا۔خود ہم بھی کچھ مختلف نہیں سوچ رہے تھے ۔ کچھ ایسی بھولی بھسری یادیں تھیں جواچانک سے دل و دماغ کے نہاں خانے سے پھدک پھدک کے باہر ارہی تھیں۔ چترال سے براستہ افغانستان پشاور سفر کرتے ہوئے اسعد اباد کے قریب اپنے ایک ہم سفر کے گال پہ وہ تھپڑ کوئی کیسے بھول سکتا ہے جو اڈیو کیسٹ برامد ہونے کے نتیجے میں ایک طالب کے ہاتھوں پڑا تھا، اور وہ (عین حلال) گالیاں بھی جو داڑھی نہ رکھنے کی پاداش میں مجھ سمیت بہت ساروں کو کھانی پڑی تھیں۔
لیکن دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشہ نہ ہوا کے مصداق اب کی بار ایسا کچھ نہیں ہوا۔ چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں لیکن کسی بڑے پیمانے پر قتال کی خبر نہیں ائی ۔ کابل کی سڑکوں پر خون ارزان نہیں ہوا۔ اشرف غنی اپنی قیمتی گاڑیوں اور ڈالروں سمیت نامعلوم مقام کی طرف کوچ کرگئے لیکن باقی عملداران اب بھی کابل میں مقیم ہیں بلکہ حکومت سازی کیلئے طالبان ان سے مذاکرات کررہے ہیں۔ طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ہے، غیرملکیوں کے تحفظ کی ظمانت دی گئی ہے، یہاں تک کہ ان افغان شہریوں جو ملک چھورنا چاہتے ہیں کو کچھ نہ کہنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ٹیلی وژن پر خواتین انکرز طالبان کا انٹرویو کررہی ہیں۔ زندگی معمول کی طرف انے لگی ہے۔ خوف کے بادل چھٹنے لگے ہیں۔ طالبان کے ترجمان نے پچھلے دور میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے ان کو نہ دہرانے کی بات کی ہے۔ اس حوالے سے طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نوے کی دہائی میں ہم نئے تھے، ہمارے پاس حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اب ہم تجربہ کار ہیں اور ہمارے کئی ممالک کے ساتھ روابط ہیں، اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کوئی بھی پارٹی اکیلے حکومت نہیں چلا سکتی اور کوئی بھی پارٹی اگر طاقت پر اجارہ داری بناتی ہے تو وہ بہتر انداز میں حکومت نہیں چلا سکتی۔‘ ’اسی لیے ہم مذاکرات کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت ہو جس میں تمام افغانوں کی نمائندگی ہو۔ صرف ملک کو آزاد کروانا ہی اہم نہیں، بلکہ ملک کی معیشت کو چلانا اور لوگوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنا بھی اہم ہے۔ یہ سب ہماری ترجیحات میں ہے۔‘
مجھے لگتا ہے کہ بیس سال پہلے جس طالب نے میرے ہمسفر کے گال پر تھپڑ مارا تھا اور مجھے گالی دی تھی، وہ اب بڑا ہوگیا ہے۔ نہ صرف بڑا ہوگیا ہے بلکہ وقت کے تھپیڑوں نے اس کو کاروبار حکومت چلانے کے گر سکھا دیئے ہیں۔ اب اس نے اپنے اندر شدید ترین دشمن شیر ہرات کہلانے والے کمانڈر محمد اسمعیل تک کو معاف کرنے کی صلاحیت پیدا کرلی ہے۔ امید ہوچلی ہے کہ افغانستان دہائیوں بعد شاید امن کی طرف واپس لوٹ آئے۔
لیکن اس ساری کہانی میں جو بڑا نہ ہوسکا وہ پاکستانی بچہ ہے۔ وہ اج سے بیس سال پہلے بھی ایسا ہی تھا، پچاس سال پہلے بھی اور شاید پچھتر سال پہلے بھی۔ پاکستانی بچے نے قسم کھا رکھی ہے اس نے نہ بڑا ہونا ہے اور نہ ہی انسان کا بچہ بننا ہے۔ ہم پاکستانی ابھی ابھی اپنا پچھترواں جشن آزادی، جسے میں “جشن مادر پدر آزادی” کہتا ہوں مناکرفارغ ہوئے ہیں۔ فارغ کیا ہوئے ہیں ابھی تک ” جشن آزادی” کا نشہ ہمارے دل ودماغ سے نہیں اترا۔ اب بھی کہیں نہ کہیں سے پٹاخے پھوڑنے کی اوازیں اتی ہیں اور باجا بجاکر راہ چلتے لوگوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بار جشن ازادی کے بطن سے جو کچھ برآمد ہوا ہے اس کا ذکر کرنا تو بنتا ہے۔ مینار پاکستان کے سائے تلے، جہاں قرارداد پاکستان پاس ہوا تھا، 400 اوباش نوجوانوں کے جتھے کی اکیلی لڑکی کوجنسی طورپر ہراسان کرنے کی ویڈیو ہماری انکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ جس بے بسی کے عالم میں لڑکی مدد کیلئے پکارتی ہے، اس کی آواز عرش تک ضرور پہچی ہوگی لیکن اس لڑکی کی بدقسمتی کہ فرش پر اس کی مدد کو کوئی بھی محمد بن قاسم موجود نہیں تھا۔ مجھے لگا کہ اس لڑکی کو نہیں کوئی میرے وطن کو نوچ رہا ہے۔ اس کا دوپٹہ نہیں بلکہ میرے وطن کا دامن تار تار ہورہا ہے۔ اس کے بال نہیں بکھرے بلکہ میرے وطن کی عزت خاک میں ملائی جارہی ہے۔ اس کی چیخ میرے وطن کی فضاؤں میں کہیں گم نہیں ہوئی بلکہ ساتھ مدفون اقبال کی روح کو یہ بتانے گئی ہے کہ دیکھو اپ کے شاہین کیا کررہے ہیں۔ ایک اور خاتون نے اپنےوال پہ لکھا کہ گاڑیوں میں پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہوئے نوجوانوں نے ان پر اوازیں کسیں اور ان کو ہراساں کیا۔ ایک گاڑی جس میں چار سے پانچ نوجوان سوار ہیں ایک شاہراہ میں کچھ اس انداز سے فراٹے بھر رہی ہے جیسے کوئی مست ہاتھی جنگل میں خرمستیاں کررہا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ جشن ازادی مناتے مناتے ہم شاہ فیصل مسجد کی میناروں کے تقدس کا بھی خیال نہیں کیا۔ ہم نے پوری دنیا کو بتادیا کہ ہم چاہیں تو گستاخ مذہب بناکرجب چاہیں جس کو چاہیں قتل کرنے کا اختیاررکھتے ہیں، ہم مندر اور گرجا گھروں کو آگ لگانے کا حق رکھتے ہیں،لیکن وقت انے پر مسجد کی حرمت تک کو اپنی تفریح اور لطف طبع کیلئے قربان کرسکتے ہیں۔
چودہ اگست ہماری اور ایک طرح سے پندرہ اگست افعانستان کیلئے ازادی کا دن تھا۔ افغانستان کا طالب اتنا بڑا ہوگیا کہ اپنی آزادی کے دن بدترین دشمن تک کو معاف کیا لیکن ہم کب اتنے بڑے ہوں گے کہ اپنی عورتوں اور مسجدوں کے تقدس کا ہی خیال کریں۔
Born and raised in Chitral, Pakistan, Murad Akbar is an Islamabad based social media activist and community development professional. He writes on tourism, social issues, and mountain communities.