Ali Ahmed Jan
جب قراقرم کے سنگلاخ پہاڑ کاٹ کر شاہراہ قراقرم بنائی گئی تو یہ دنیا کا
اٹھواں عجوبہ کہلایا جس نے مشرق اور مغرب کے بیچ حائل دیوار کو پاٹ دی
تھی۔ اس روڑ کی تعمیر سے چین کو جو دفاعی اور معاشی فوائد حاصل ہوئے
اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی چین نے پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی
راہ داری کا منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت تجارت کے علاوہ رسل و رسائل،
تونائی اور صنعت کو فروغ دینا شامل ہے جس سے دونوں ممالک کو فوائد
حاصل ہونے کی امید ہے۔
پاکستان توانائی کی کمی کے بحران سے گزر رہا ہے اور بجلی پیدا کرنے کے
مختلف زرائع میں سے ایک دریائے سندھ اور دیگر آبی وسائل ہیں جس سے وہ
اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تونائی کے منصوبوں کے
لئے خطیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے بین الاقوامی مالیاتی
اداروں کا تعاون ضروری ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ پاکستان کی معاشی ساخت
اتنی بہتر نہیں کہ اس کو بڑے قرضے دئے جا سکیں ۔ پاکستان کے پاس اس
صورت حال میں واحد حل چین کی امداد کی شکل میں سامنے آتا ہے جس سے
فائدہ اٹھا کر وہ اپنے توانائی کے منصوبوں کو عملی جامعہ پہنا سکتا ہے۔
تونائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے ترجیحات میں پاکستان کے دو بڑے
منصوبوں میں سے دریائے سندھ پر داسو ڈیم اور اس کے بعد دیامر بھاشا ڈیم
کی تعمیر سرفہرست ہے۔ ان دونوں منصوبوں کئ تکمیل کے بعد بونجی اور
سکردو کچورہ میں بھی ایسے ڈیم بنانے کے منصوبے ہیں۔
حالیہ دنوں میں طالبان کے افغانستان میں پیش قدمی کے ساتھ ہی شاہرہ قراقرم
سے منسلک بابوسر پر دہشت گردی میں سرکار کو مطلوب لوگوں کا سرعام
کھلی کچہری منعقد کرنا اور اس کے بعد داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی
کارکنوں کی بس میں دھماکہ سے ایک تشویش ناک صورت حال پیدا ہوچکی
ہے۔
تخریب کاری کے اس کاروائی کا بادی النظر میں مقصد بالکل واضح ہے ۔اگر
چین کوداسو ڈیم پر کام کرنے سے روکنے میں کامیاب ہوئی تو دیامر بھاشا ڈیم
پر بھی کام نہ ہو پائے گا جس سے پاکستان اپنی توانئی کے بحران پر قابو پانے
میں ناکام ہوگا اور چین کو اس کے اقتصادی پھیلاؤ کے منصوبے میں ناکامی
ہوگی ۔
تونائی کے یہ دونوں بڑے منصوبے بھی اتفاقاً شاہراہ قراقرم پر ہی واقع ہیں جو
پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی راہ داری کی شاہرگ بھی ہے۔ یوں لگتا
ہے کہ مستقبل میں چین کے معاشی مفادات کو نشانہ بنانے کی جو کوشش کی
جائے گی اس کا ایک ہدف شاہراہ قراقرم ہو سکتا ہے۔
شاہراہ قراقرم کو نشانہ بنانے سے پاکستان کو نہ صرف تجارت اور توانائی کے
شعبوں میں نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ سیاحت بھی متاثر ہوگی جس پر پورے
شمالی علاقہ جات خاص طور پر گلگت بلتستان کا انحصار ہے ۔ تجارت، تونائی
اور سیاحت کے شعبے متاثر ہونے سے اس خطے کی غربت میں مزید اضافہ
ہوگا جس سے عوامی بے چینی پیدا ہو سکتی ہے اور یہی ان کاروائیوں کا دیرپا
مقصد نظر آتا ہے۔
Ali Ahmad Jan is an Islamabad-based development consultant