پاک افغان تجارت۔ مشکلات و وجوہات۔۔۔۔

0

شمس مومند

پاک افغان تجارت

دو ہزار چار سو تیس کلومیٹر طویل پاک افغان بارڈر جو  پاکستان کے شمال میں واخان پٹی سے شروع ہوکر بلوچستان میں ختم ہوتی ہے۔ اس طویل سرحد پر سولہ مقامات ایسے ہیں جہاں سے روایتی طور پرمقامی لوگوں کی آمد ورفت اور سرحدی تجارت ہوتی رہی ہے۔ مگر دنیا بھر میں عموما اور پاک افغان سرحدی علاقوں میں خصوصادہشت گردی، سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے بڑھتے واقعات نے اس سرحد پر آمد ورفت اور تجارت کو بھی متاثر کیا۔ اور حکومت پاکستان کو مجبورا ان سولہ مقامات کو پانچ سرحدی دروازوں (طورخم، خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ اور چمن)تک محدود کرنا پڑا۔

چونکہ افغانستان کا کوئی سمندری ساحل نہیں ہے اس لئے بین الاقوامی قوانین کے مطابق پاکستان افغانستان کو دنیا بھر سے تجارتی سامان کی درآمد کے لئے ٹرانزٹ سہولت فراہم کر رہا ہے۔ لیکن بوجوہ درجہ بالا پانچ میں سے صرف دو راستوں طورخم اور چمن کو ٹرانزٹ ٹریڈ اور بین الاقوامی تجارت کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔ جس کی وجہ سے ڈرائیور اور کنڈیکٹر سے لیکر تاجر حضرات، گاڑی مالکان مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں بلکہ حکومتوں تک کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اور آئے روز طور خم بارڈر پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں کنٹینرز دو سے  سات دن تک کلیرنس کے انتظار میں گزارتے ہیں جس کی وجہ سے تاجروں کا انتہائی قیمتی سرمایہ اور وقت ضائع ہورہا ہے۔ تین دن پہلے بھی اسی قسم کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے پاک افغان سرحدی حکام کی فلیگ
میٹنگ منعقد ہوئی۔ دجہ ذیل میں ہم ان رکاوٹوں اور انتظار کی وجوہات اور اس کے ممکنہ حل پر بات کرتے ہیں۔

اس حوالے سے رابطہ کرنے پرپاک افغان تجارت جائینٹ چیمبر آف کامرس کے سابق سینیئر نائب صدر اور فرنٹیرکسٹم کلیرنگ ایجنٹس ایسوی ایشن کے صدر ضیاء الحق سرحدی نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان، افغانستان کے لئے حکومت کے خصوصی نمائندے محمد صادق اور وزیر اعظم کے مشیر ارباب شہزاد کی تمام تر کوششوں اور خواہش کے باوجود طورخم بارڈر پر تاجروں اور کنٹینرز مالکان کی مشکلات میں کمی نہیں ہوئی۔ ان رکاوٹوں کیوجہ سے گزشتہ چھ مہینے میں تاجروں کو صرف کراچی میں اضافی کرایہ اور مال خراب ہونے کیوجہ سے چالیس کروڑ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ انھوں نے الزام لگایا۔ کہ دو سال پہلے راہداری پرمٹ، پارکنگ اور مختلف چیک پوسٹوں پر چائے پانی سمیت فی گاڑی خرچہ پانچ سے چھ ہزار روپے ہوتا تھا مگر اب متعددمحکموں (این ایل سی، کسٹم، پولیس، ایف آئی اے، انتظامیہ،ایف سی) کی موجودگی نے تاجروں اور کنٹینرز مالکان کی مشکلات میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے اور اب وقت کے ضیاع کیساتھ ساتھ فی گاڑی اضافی خرچہ پچاس سے ساٹھ ہزار روپے آتا ہے۔انھوں نے کہا کہ چار سال پہلے سے شروع ہونے والا ایشیائی ترقیاتی بنک کا پراجیکٹ این ایل سی نے ابھی تک مکمل نہیں کیا جس میں طورخم اور چمن کراسنگ پوائنٹس کو واہگہ کی طرح سہولیات سے آراستہ کرنا اور یہاں سے تجارتی سامان سمیت آمد ورفت کو منظم اور آسان بنانا ہے۔

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹ کے سابق صدر ابراہیم شینواری نے کہا مقامی ڈرائیور وں کا کہنا ہے کہ این ایل سی کے کارندے اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔ وہ ہر قسم کے تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں۔ ابراہیم شینواری نے کہا کہ ٹرکوں اور کنٹینرز کو سکین کرنے والے  سکینرز کی تعداد بڑھائی جائے، زیرو پواینٹ پر داخلی و خارجی دروازوں کو الگ الگ کیا جائے  اور سیکیورٹی معاملات دو تین کی بجائے کسی ایک ادارے کے ذمے لگائے جائے تو ان مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے بھی این ایل سی کے جد ید ترین ٹرمینل بنانے کے وعدے اور کام کی رفتار کا شکوہ کیا۔

فلیگ میٹنگ میں شرکت کرنے والے ذمہ دار سرکاری افسر ڈپٹی کمشنر خیبر محمود اسلم نے تفصیل سے ان مشکلات اور ان کی وجوہات پر روشنی ڈالی ان کا کہنا تھا۔ کہ مارچ میں کرونا کیوجہ سے سرحدات کی بندش سے گاڑیوں کی بہاو کا سلسلہ متاثر ہوا۔اگرچہ جون سے سرحدوں کو واپس کھولا گیا ہے مگر کرونا ایس او پیز پر عملدرآمد جس میں زیرو پوائنٹ پر ڈرائیوروں کی تبدیلی،  تمام سامان کی جراثیم کشی کا عمل وغیرہ شامل ہیں ان کاموں نے سرحد پر گاڑیوں کی آمد ورفت کے عمل کو نسبتا سست بنایا ہے۔ انھوں نے بتا یا کہ کرونا سے پہلے ہم صرف درآمدی سامان کو سکین کرتے تھے مگر اب حکومتی ہدایات کی روشنی میں درآمدی اور برآمدی تمام سامان کو گاڑیوں سمیت سکین کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چمن بارڈر پر گزشتہ دو ہفتوں  احتجاجی دھرنے  اورحالات کی خرابی کیوجہ سے بھی طورخم بارڈر پر گاڑیوں کا رش بڑھ گیا ہے، انھوں نے کہا کہ این ایل سی نے ایشیائی ترقیاتی بنک کے تعاون سے سولہ ارب روپے کے ایک بڑے پراجیکٹ پر کام شروع کیا ہے جس میں تمام جدید سہولیات سے آراستہ ٹرمینلز سمیت چمن اور طورخم سرحدوں پر آمد ورفت کو منظم اور آسان بنایا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ فلیگ میٹنگ میں افغان حکام نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کی کہ روایتی سرحدی طریقہ کار اور آنے جانے کی گنتی اور تناسب کو عارضی طور پر نرم کیا جائے گا تاکہ جمع شدہ سامان اور
گاڑیوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔

افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے اور سینئر ڈپلومیٹ محمد صادق نے رابطہ کرنے پر حکومتی اقدامات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے طورخم پر رش کم کرنے کے لئے کرم شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بالترتیب خرلاچی، غلام خان اور انگور اڈہ سرحدوں پر گاڑیوں کی آمد ورفت کی اجازت دے دی ہے،بقول ان کے گزشتہ روز بھی غلام خان گیٹ سے دو سو گاڑیون کی آمد ورفت ہوئی ہے۔ ہم نے سیمنٹ بر آمد کرنے والے تمام گاڑیوں کو خرلاچی گیٹ سے جانے کے احکامات دئے ہیں۔ ہم نے افغان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غلام خان سرحد پر اپنا ضروری عملہ تعینات کرے تاکہ افغان ٹرانزٹ سامان کا کچھ حصہ وہاں سے افغانستان بھیج کر طورخم پر بوجھ کو کم کیا جاسکے۔ انھوں نے کہا طورخم میں جدید ٹرمینل بنانے پر کام تیزی سے جاری ہے جبکہ سرحدی سڑک کو سات رویہ کرنے کے لئے بھی اقدامت جاری ہے۔ جس میں سے تین رویہ سڑک صرف برآمدی گاڑیوں کے لئے ہوگی۔ تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ پہلے جس گیٹ سے روزانہ بارہ سو گاڑیوں کو بھیجا جارہا تھا وہاں کرونا کے بعد  تعدادصرف چار سو گاڑیوں تک محدود کرنے میں سرحدی حکام اور متعلقہ اداروں کی کچھ کوتاہیاں بھی شامل ہیں جس کو دور کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ محمد صادق نے کہا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں آٹھ سو گاڑیوں کو  طورخم بارڈر پر سرحد پار بھجیاگیا ہے۔ اور بہت جلد یہ تعداد بارہ سو روزانہ تک بڑھا دی جائے گی۔ جس سے جمع ہونے والی گاڑیوں کا مسئلہ ختم ہوجائے گا۔

پاکستان کی جانب درجہ بالا تمام حقائق کے ساتھ ساتھ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بھی تین وجوہات کیوجہ سے پاک افغان تجارت پر رش بن جاتا ہے جس میں اس طرف انتہائی تنگ سڑک کا ہونا، ان کے نئے لگائے گئے ڈیجیٹل وزن کانٹا میں فالٹ اور ان کے سرحدی حکام کا یہ کہنا کہ دونوں طرف سے آنے جانے والے گاڑیوں کی مقدار برابر ہونی چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ افغان حکام کیساتھ ملکر اس مسئلے کا پائدار حل نکالا جائے تاکہ دونوں ممالک قریب ترین اور آسان سستی منڈیوں سے فائدہ اٹھا سکے۔