27.9 C
Islamabad
Friday, May 10, 2024
spot_img

عورت ۔ جنگ اور حقیقت

فرزانہ علی

جنگوں میں سب سے زیادہ متاثر عورتیں ہوتی ہیں ۔یہ بظاہر ایک جملہ ہے لیکن اسکی تلخی میں نے گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران خیبر پختونخوا کے گلی کوچوں اور قبائلی اضلاع کے میدانوں اور پہاڑوں میں محسوس کی ہے ۔ نائین الیون کے بعد پاکستان میں آنے والی دہشت گردی کی لہر سے جہاں اس زمین پر بسنے والاہر فرد متاثر ہوا وہاں مجھے بحیثیت صحافی ان تلخ حقیقتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جس سے ایک ماں ،بہن ،بیوی اور بیٹی گزر رہی تھی ۔جہاد کے لئے مجاہدین کو جنم دینے والی اس سر زمین کی مائیں اپنے سینوں میں کتنے راز لئے گھوم رہی ہیں اس کا اندازہ مجھے 2006سے20019تک صحافت کے دوران مختلف علاقوں کی خواتین سے مل کر ہوا ۔عام طور پر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اس جنگ اور اس کے اثرات سے زیادہ تر قبائلی اضلاع کے عوام متاثر ہوئے لیکن جو معاملات بڑے بڑے بندوبستی علاقوں میں ہوئے اسکی کہانی بہت کم لوگوں کو معلوم ہے ۔ صوبائی دارلحکومت پشاور کے گلی کوچوں میں بنی مساجد اور مدرسوں میں جہاد کے لئے ہونے والی بھرتیوں کے بارے میں ماوں کی کہانیاں صرف کہانیاں نہیں بلکہ وہ حقیقت ہے جو قانون نافذ کرنے والوں کی کمزوریوں یا مصلحتوں کو واضح کر گئیں ۔نوجوان دہشت گردی کا انیدھن کیسے بنتے ہیں یہ سوال لے کر جب میں پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں گئی تو کئی ایسی ماوں اور نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جن کے بیٹے اس دشت گردی کا ایندھن بنے جسکو جہاد کا نام دے کر مسلمان ماوں کو نہ صرف برین واش کیا گیا بلکہ معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے نوجوانوں کی کہانی نے حیران کر دیا جو ریاست کے بیانیے کے فکری پہلوسے متاثر ہو کر اس کھیل کا حصہ بن گئے جسکا انجام صرف موت تھا ۔اپنی یا دوسروں کی ۔انہی کرداروں میں سے تین میری ایک ڈاکو مینٹری کا حصہ تھے ۔مردان کا عبداللہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کا ولید اور جواد اکبر ۔سماجی اور معاشی مجبوریوں میں گھرے یہ نوجوان اُسی بیانیے کے فکری پہلو کے تحت دہشتگردی کو جہاد سمجھ کراُسکا شکار بن گئے۔ عبداللہ خودکش بمبار بنا اور ولید پولیس اہلکار سے دہشت گردبن گیا اور ڈیرہ جیل حملے کا اہم کردار جواد اکرم جو ولید کا کزن تھا بھی دہشت گرد بننے سے نہ بچ سکا۔جواد اکرم کے ساتھ انٹرویو کے دوران مجھے احساس ہوا کہ گذشتہ تین دہائیوں سے ریاست کے جس بیانیے کو بنیاد بنا کر ہم نے خود کو مضبوط بنانے کی کوشش کی وہی ہماری بربادی کا سبب بنا ہے ۔اور ہمارے نوجوان اس بیانیے  کے فکری پہلو میں جکڑ کر شدت پسندی کا شکار ہو گئے۔جواد سے آرمی پبلک سکول تک کی کہانی اُسی سوچ  پر مبنی ہے جس نے پختونخوا کی ماوں کو کئی لاشوں کے تحفے دیے۔ میں سمجھتی تھی کہ اس بیانیے کے فکری پہلو نے صرف نوجوانوں کو ہی متاثر کیا ہے لیکن آرمی پبلک سکول کے واقعے میں شہید ہونے والے ایک بچے کی ماں کے ایک جملے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا کہ جب اُس نے روتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ طالبان اچھے لوگ ہیں جو اسلام اورشریعت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں لیکن اب جب انھوں نے ہمارے بچوں کو مارا تو ہمیں احساس ہوا کہ اُنکا ایجنڈا کچھ اور ہے ۔مجھے اُس ماں سے بہت ہمدردی تھی اور خاص طور پر اس کے بیٹے کی چمکتی آنکھیں آج بھی مجھے پریشان کر دیتی ہیں لیکن یہ احساس کہ جہاد کے طلسم اور شریعت کے نفاذ کا نعرہ ہماری خواتین کو بھی سحر میں مبتلا کئے ہوئے ہے ۔اس انکشاف نے مجھے کچھ اور کرداروں کی کھوج پر مجبور کیا اور میری ملاقات کچھ ایسی ماوں سے ہوئی جو فکری طور پر اس سوچ کی حامی  تھیں کہ مسلمان عورت کی زندگی کا واحد مقصد مجاہدین کی پیدائش ہے اور ہم نے ایسے ہی مجاہد جنم دینے ہیں جو اسلام اور شریعت کے نفاذ کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیں ۔کیا یہ سوچ صرف قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں رہنے والی خواتین کی ہے یا پھر بندوبستی علاقوں میں بھی یہ معا ملہ ہے ۔تو جواب بڑا ہی بھیانک تھا جو کھیل پہلے دوردراز علاقوں میں کھیلا جارہا تھا اب اسکا نشانہ صوبائی دارلحکومت پشاور کے پوش علاقوں میں رہنے والی خواتین تھیں ۔کچھ خواتین کے ساتھ ملاقات میں پتہ چلا کہ پنجاب سے آنے والی خواتین یہاں ایسے مدرسے چلا رہی ہیں جہاں خواتین کو برین واش کیا جاتا ہے ۔وہ کلاس جو عام طور پر مذہب اور شریعت سے دور سمجھی جاتی ہیں اُنکی خواتین کو ایک خاص فکری پہلو سے روشناس کروانا ان خواتین کا مقصد تھا ۔جسکے کئی نمونے ہم نے پھر آنے والے وقت میں دیکھے کہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور بڑی بڑی پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان بھی دھماکوں میں ملوث پائے گئے۔معاشرتی سطح پر پھیلے اس بگاڑ میں کئی عوامل پل کا کردار ادا کرتے نظر آئے جنکی سرپرستی کا الزام ریاستی اداروں پر بھی لگایا گیا ۔اس الزام کی کئی کہانیاں میں نے شمالی وزیرستان میں ایک آزاد صحافی کے طور پر اپنے تازہ ترین سفر کے دوران سنیں ۔اگرچہ اس سے قبل آپریشن ضرب عضب کے دوران بکا خیل اور بنوں میں آنے والے آپریشن متاثرین میں شامل خواتین نے اپنی زندگی کے حقائق کھول کر جب سامنے رکھے تو ان الزامات کو جیسے زبان مل گئی۔خاص طور پر بکا خیل میں ایک 80سالہ خاتون نے میرا ہاتھ پکڑ کربولا کہ کئی سال قبل کچھ انجان لوگ ہمارے ہاں افغانستان سے آئے تو میرے شوہر نے مجھے کہا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کے سلسلے میں نکلے ہیں ۔پڑوس میں کافرانھیں مارنا چاہتے ہیں اس لئے یہ ہمارے ساتھ رہیں گے ۔پھر ہمارے ہاں کئی لڑکیوں کی شادیاں بھی مجاہدین سے ہوئیں جن میں سے کئی انکو لے کر چلے گئے کچھ وہیں رہے ۔انکے بچے ہوئے اب وہ بڑے ہیں۔لیکن اب ہمیں یہ کہہ دیا گیا کہ وہ دہشت گرد ہیں ۔تم بتاواب ہم کیا کریں ، وہ میرے نواسے ہیں ۔یہ انکے دشمن ہو گئے۔ہمارے گھر تباہ کر رہے ہیں حالانکہ سب کچھ انکے سامنے ہوا لیکن گنہگار صرف ہم کیوں۔میرے پاس اس بزرگ خاتون کی باتوں کا کوئی جواب نہ تھا اس لئے میں خاموشی سے اُٹھ آئی۔ ویسے بھی اس خاتون کی باتیں یا انٹرویو نیشنل ٹی وی  پر چلنے کے قابل نہ تھا۔اسی طرح کی صورتحال رواں سال جنوری میں بھی سامنے آئی کہ جب میں میرعلی اور میرانشاہ کے بازاروں اور مختلف علاقوں میں رپورٹنگ کے لئے گئی تو کئی افراد کو اسی طرح کی شکایتیں کرتے دیکھا ۔میر علی بازار میں ایک نوجوان منہ پر کپڑالپیٹ کر بات کرنا چاہتا تھا میں نے کپڑا ہٹا کر بات کرنے کی خواہش کی تو اس نے کہا کہ آپ تو انٹرویو کر کے چلی جائیں گی لیکن میں مارا جاوں گا ۔ریاستی معاملات اور عوامی شکایات کے ساتھ ساتھ ایک نہ سمجھ آنے والی کہانی ماچس گاوں کی بھی ہے جسکو اپنی آنکھوں سے تباہ حال دیکھ کر کئی سوال ذہن میں آئے لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ دو سالوں سے نیلے پلاسٹک کی بنی دیواروں اور چھتوں میں رہتے خاندان کی خواتین سے ملاقات میں انکے چہرے پر چھائی پریشانیاں اور بے گھرہونے  کے دکھ واضح نظر آئے۔چھوٹا دتہ خیل میں ایک ایسے ہی گھر میں اپنی گود میں چند ماہ کا نمونیہ سے متاثرہ بچہ لئے ماں نے بتایا کہ گذشتہ سال اس کے دیور اور نند کا بیٹا اسی طرح سردی سے مر گیا اور ابھی اس سال ایک اور دیور کا بچہ اور اب یہ بیمار ہے ۔پتہ نہیں ہمیں کن گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔بچے کی حالت بہت خراب تھی لیکن میر علی ہسپتال سے یہ کہہ کر بچے کو ڈسچارج کیا جا چکا تھا کہ بچہ ٹھیک ہے اور پشاور جانے کا انکے پاس خرچہ نہ تھا ۔دہائیوں سے چلتی اس جنگ میں دکھوں کی رات بہت طویل نظر آرہی تھی ۔لیکن ان مسائل سے قطع نظرجس ریاستی بیانیے کو لے کران علاقو ں کو ملیامیٹ کیا گیا اسکا ریورسل مجھے کہیں نظر نہ آیا ۔بنوں میں کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو اب بھی کیمپ میں پڑے ہوئے تھے جس میں 14 سالہ پری کی باتوں نے مجھے نظریں چرانے پر مجبور کر دیا ۔سخت سردی اور سخت گرمی میں کئی سالوں سے لڑتی پری اور اسکا خاندان آپریشن ضرب عضب کے دوران  یہاں آیا اور ابھی تک واپسی کے لئے گرین سگنل کا منتظر تھا ۔انتہائی خوبصورت پری کی جلد اب سنولانے لگی تھی ۔شوال کی خوبصورت وادی سے بنوں کے جلتے اور کھلے میدانوں میں جھونپڑیوں میں گزرتی زندگی نے پری کو بے حال کر دیا تھا ۔مقتدر حلقوں سے نالاں یہ خاندان دہشت گردی کی جنگ میں دئیے گئے جوازوں سے مطمن نظر نہ آیا کیونکہ انکے مطابق کون کہاں سے آیا اور کہاں گیا یہ عام آدمی کی سطح کی بات نہیں۔معاملہ صرف اگر کہانی کے انجان چہروں تک محدود ہوتا تو شاید اس پر بات ایک ہی تناظر میں ہوتی لیکن تاریخ کے اوراق پر دہشت گردی کے اس سفر میں کچھ کہانیاں ایسی بھی شامل ہو رہی ہیں جو اس سرزمین پر چلتے بین الا قوامی کھیل میں خود اپنوں کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں جیسا کہ مہمند کے علاقے ممد گٹ کا واقعہ ۔۔ایک عورت کے ہاتھوں سیکورٹی اہلکار کا قتل اور پھر بین الاقوامی میڈیا پر اس خاتون زیبا بی بی کے انٹرویو نے مجھے مہمند جانے پر مجبور کر دیا ۔کھیتوں کے ایک طرف کچھ گھروں پر مشتمل گاوں اور دوسری طرف سیکورٹی کیمپ ۔متاثرہ گھر کے افراد کے بیان میں ایک بات تو واضح ہو گئی کہ کہانی صرف قاتل اور مقتول کی نہیں تھی ۔کہانی کے پیچھے کے کردارد ہشت کو بدلے میں ڈھالنے میں معاون ثابت ہو رہے تھے ۔معاشی اور معاشرتی مجبوریوں اور ایک طرح کے فکری بیانیے کی اس طویل داستان میں کئی عوامل اور کردار ایسے بھی ہیں جو معاملات کے بگاڑ کا باعث بنے۔کسی اور کی جنگ میں ہم نے اپنوں کو اپنا دشمن بنا لیا ۔خڑقمر کا واقعہ یا اس سے قبل خیسور میں نور بی بی کی کہانی یا پھر آپریشن راہ راست میں شموزئی میں ہونے والے واقعات ۔جنگ اور عورت کے استحصال اور دکھ کے ایسے ساتھ کوآشکار کرتے ہیں جسکی کئی کہانیاں ہیں جن میں سے اگر کوئی منظر عام پر آئی بھی تو اس سے روایتی انداز سے نمٹا گیا جسکا ردعمل بھی شدید انداز میں سامنے آیا جو ریاستی اداروں پر حرف اُٹھانے کا سبب بنا اس لئے میرے ان تجربات سے ایک ہی نتیجہ نکلا کہ ایک طرف سچ کا چہرہ رنگین کرنے کے چکر میں ہم کئی دہائیوں سے اُسکی کالک بڑھاتے جارہے ہیں جسکا نتیجہ معاشرے میں پھیلی دُھند میں اضافے کا سبب بن رہا ہے تو دوسری طرف ریاست اپنا بیانیہ بدلنے کے لئے قطعی طور پر تیار نہیں جسکی کئی مثالیں آج بھی دیر،بنوں اور چارسدہ میں سرحد پار سے آنے والی لاشیں اور انکے ہونے والے جنازے ہیں۔

Related Articles

Stay Connected

2,945FansLike
1,120FollowersFollow
8,618FollowersFollow
7,880SubscribersSubscribe

Latest Articles