خواتین کی ترقی،ہمارا نظام تعلیم اور ضم شدہ اضلاع

0

شمس مومند

دنیا بھر میں تعلیم کے بغیر ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اورمعیاری تعلیم کے لئے دنیا میں نہ صرف یہ کہ سنجیدہ کوششیں ہوتی ہے اس کے لئے باقاعدہ تحقیق سرویز اور مطالعے کئے جاتے ہیں  بلکہ ان تحقیق اور سٹڈیز کے نتائج کو لاگو کرنے کے لئے بھی اقدامات کئے جاتے ہیں۔بد قسمتی سے پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اولا یہ کہ ہم اکیسویں صدی میں بھی کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر زبانی کلامی باتوں اور وقتی سیاسی مفادات اور ایمرجنسی ضروریات کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔ ہم اعداد و شمار پر یقین نہیں رکھتے نہ ہی اعداد و شمار سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پانچ سو افراد کی آبادی والے گاوں کو چھوڑ کر پچاس افراد کے گاوں میں سکول اور ہسپتال بناتے ہیں۔ کیونکہ وہاں سے سیاسی ذاتی یا گروہی مفدات وابستہ ہوتے ہیں۔ پچاس لاکھ کی آبادی والے نئے ضم شدہ اضلاع کے عوام میری بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اس قسم کی صورتحال کے چشم دید گواہ ہیں۔

آج کے کالم میں ہم ایک ایسے سروے  یا پالیسی رپورٹ کے نتائج اور سفارشات کا جائزہ لیتے ہیں جو تقریبا تین سال قبل ایک عالمی ادارے کی جانب سے نئے ضم شدہ اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے کیا گیا ہے۔رپورٹ کی ابتدا میں کہا گیا ہے کہ سابقہ فاٹا یا خیبر پختونخوا میں ضم شدہ نئے اضلاع وہ علاقے ہیں جہاں کے عوام طویل عرصے سے بنیادی حقوق سے محروم چلے آرہے تھے مگر انیس سو نوے کے بعد طالبانائزیشن نے اس علاقے کی خواتین اور اقلیتوں کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا۔ ان کو نقل و حرکت، بدسلوکی رسم ورواج  اور اظہار رائے سمیت متعدد پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔اب جبکہ یہ علاقے طالبانائزیشن کی چنگل سمیت ایف سی آر کی پابندیوں سے بھی آزاد ہوچکے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں کی انچاس فیصد خواتین آبادی کو اپنے پاو ں پر کھڑا کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کئے جائے۔ سروے میں دوہزار سترہ کے تعلیمی مردم شماری کا حوالہ دے کربتایا گیا ہے۔ کہ ضم شدہ اضلاع کی کل ۷۳ فیصد لڑکیاں پرائمری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں مگر ہائی سکول تک پہنچتے پہنچتے یہ تعداد صرف ۵ فیصد رہ جاتی ہے۔ باقی وجوہات کیساتھ ساتھ اس کی ایک بڑی وجہ عسکریت پسندی کے دور میں ایک ہزار ایک سو پچانوے سکولوں کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا بھی تھی۔ باقی وجوہات میں علاقے میں پچاس فیصد شرح غربت، ہائی سکولوں کی کمی، سکولوں تک آنے جانے کے لئے آمد ورفت کی مشکلات اور پچاس فیصد سکولوں میں پانی بجلی اور ٹائلیٹ کی عدم دستیابی شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نئے ضم شدہ اضلاع کی صورتحال ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے اس لئے مختلف اضلاع کی جغرافیائی معاشی اور معاشرتی صورتحال کو مدنظر رکھ کر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ پشاور اور چارسدہ سے منسلک ضلع مہمند اور خیبر کی صورتحال  تیراہ بائزئی اور وزیرستان کی صورتحال سے بالکل مختلف ہے اس لئے ہر جگہہ کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر مقامی سطح پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے  مگر اس میں خاص طور پر ٹرانسپورٹ کی سہولت، غریب والدین کی مالی امداد اور حصول تعلیم کی وسیع مقصد سے لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ جب تک مقامی سطح پر تعلیم یافتہ خواتین کے لئے روزگار کے مواقع میں اضافہ نہیں کیا جائے گا علاقے میں شرح تعلیم میں نمایا اضافہ ناممکن ہوگا۔ کیونکہ غریب والدین جب اپنے پڑوس میں تعلیم یافتہ خواتین کی بے روگاری اور مایوسی دیکھتے ہیں تو ان کا حصول تعلیم اور نتیجتا کامیابی سے یقین اٹھ جاتا ہے۔ اور خواتین کی یہی بے روزگاری نہ صرف یہ کہ شرح تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ یہی مقامی خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے اور انہیں اپنے گھریلوں اور خاندانی فیصلہ سازی میں کردار ادا کرنے کی راہ میں بھی رکاوٹ بن گئی ہے۔ ہم چند سال پہلے بھی کسی کالم میں تجویز کر چکے ہیں کہ خواتین کی تعلیمی شرح میں اضافے اور انکو معاشی اور خاندانی طور پر مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نئے ضم شدہ اضلاع کے تمام پرائمری سکولوں میں صرف خواتین اساتذہ کو تعینات کیاجائے۔ اس سے نہ صرف خواتین کے لئے روزگار کے ہزاروں مواقع ملیں گے بلکہ پرائمری سکولوں میں بچوں کی تعلیم وتربیت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ ساتھ ہی پہاڑی اور سخت علاقوں کے بچوں کی نفسیات میں بھی خواتین کے لئے نرمی اور احترام کے جذبات کو پیدا کیا جاسکے گا

The writer is a senior journalist, TV and radio show host. He is a senior program officer at CRSS