28.2 C
Islamabad
Tuesday, May 14, 2024
spot_img

تھرپارکر کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکا ، پینے کے پانی پے لگا ۔

سہیل میمن

شمال میں میرپور خاص اور عمرکوٹ ، مشرق میں بھارت کے بارمیر اور جیسلمیر کے اضلاع،مغرب میں بدین اور جنوب میں رن کچھ کا  علاقہ  رکھنے والا پاکستان کا سب سے بڑا ریگستانی تھر پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں واقع ہے ۔ 1990ء تک عمرکوٹ اور میرپورخاص کے اضلاع ضلع تھرپارکر کا حصہ تھے، جس کا صدر مقام میرپور خاص شہر تھا۔ 31 اکتوبر 1990ء کو اسے دو اضلاع میرپور خاص اور تھرپارکر میں تقسیم کر دیا گیا۔ تھرپارکر کا ضلعی صدر مقام مٹھی ہے۔  آگے چل کے عمرکوٹ کو 17 اپریل 1993ء کو ایک الگ ضلع بنایا گیا۔آخری قومی مردم شماری 1998ء کے مطابق تھرپارکر کی آبادی 955،812 ہے جس میں سے صرف 4.54 فیصد ہی شہروں میں مقیم ہے۔  ضلع کا کل رقبہ 19،638 مربع کلومیٹر ہے۔

sindh province

تھرپارکر میں انسان خواہ کسی بھی جاندار کے لیئے اگر کوئی سب سے قیمتی چیز ہے تو وہ پانی ہے اور یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ تھر میں پاکستان کی تاریخ میں اگر کسی سب سے بڑے ترقیاتی پراجیکٹ پراربوں رپیا ضایع ہوے یا اس میں کرپشن ہوئی ہے تو وہ پانی ہی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تھر کے لوگوں اور جانوروں کی سب سے قیمتی چیز پانی پر ڈاکا ڈالا گیا ہے ۔

سندھ حکومت نے کچھ سال پہلے تھرپارکر سمیت پورے سندھ میں 22 ارب روپے کی لاگت سے آر او پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا  جس میں سے تھرپارکر میں ساڑھے پانچ ارب روپے کی لاگت سے پورے تھرپارکر میں آر او پلانٹ لگانے کا کام شروع کیا گیا ، اس دوران 778 آر او پلانٹ لگائے گئے جس میں سے  700 آر او پلانٹس حکومت سندھ کے اسپیشل انیشیٹو ڈپارٹمنٹ کی طرف سے اور 78  پلانٹ سندھ کول اٹھارٹی کی طرف سے لگائے گئے ۔ پہلے سندھ ھائی کورٹ کے جسٹس اقبال کلہوڑواور ان کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سےجسٹس امیر مسلم ہانی کی سربراہی میں بنائے گئے سندھ واٹر کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جولاء 2017 تک ان 778 آر ان پلانٹس میں سے 412 فنکشنل تھے ، 156  بلکل ہی کام نہیں کر رہے تھے اور 210 آر او پلانٹ کاغذی کاروائیوں کی وجہ سے رل گئے تھے ۔ اس معاملے میں اھم بات یہ ہے کہ  تھر کے اور اس کے علاوہ پورے سندھ کے یہ سب کے سب آر او پلانٹس لگانے اوران کی دیکھ بھال کا ٹھیکہ صرف ایک کمپنی پاک اوسس کو دیا گیا تھا

thar parkar

سندھ واٹر کمیشن کے سابق چیئرمین جسٹس اقبال کلہوڑو نے صوبے میں 1900 آر او پلانٹس کے ٹھیکوں کی تفصیلات طلب کیں، بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ایک ہی کمپنی کو تمام ٹھیکے دینے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے تفصیلات طلب کیں، جس کے مطابق پاک اوسس چھوٹے آر او پلانٹ کے حکومت سندھ سے بیس ھزارماہانہ وصول کرتی رہی جبکہ بڑے آر او پلانٹ کے  160 روپے فی ہزار گیلن کے حساب سے کمپنی کو ادائیگی ہوتی رھی ، کمپنی کا دعوی رہا کہ وہ ایک بڑے آ ر او پلانٹ سے  دس لاکھ گیلن پانی روزانہ مھیا کرتے رہے ہیں ۔ اس حساب سے پاک اوسس کمپنی نے اربوں روپے سندھ حکومت سے وصول کیئے اور اس بات کا پیمانہ بھی نھیں رہا کہ واقعی میں کتنا پانی ، اور کس معیار کا پانی تھر کے لوگوں کو ان اربوں روپوں کے عیوض ملتا رہا اور وہ پانی پینے کے لائق بھی تھا کہ نہیں ، کیونکہ ان آر او پلانٹس کا پانی چیک کرنے کی پورے تھرپارکر میں صرف ایک لیبارٹری ، آر او پلانٹ مٹھی میں بنائی گئی تھی ۔

 سندھ واٹر کمیشن کی ، مسلسل ایک سال کی محنت ، ماہرین کی مدد، لیبارٹریز سے پانی کی ٹیسٹنگ اور آئین ، قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے ، اس بنیادی انسانی حق پانی کی مد  میں، فیلڈ کے مسلسل دورے ، اپنی آنکھوں دیکھا حال ، مقامی لوگوں کے بیانات، لوکل خواہ بڑے سرکاری افسروں کے بیانات جو سب اس واٹر کمیشن کی رپورٹ کا حصہ ہیں کو ہی اگر لیا جائے تو گذشتہ چند سالوں میں سندھ میں پینے کے پانی کے ذمرے میں ہونے والی کرپشن ، سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا ، میگا کرپشن اسکینڈل ثابت ہوگا ، مگر جیسا یہاں ہوتا آیا ہے ، سندھ واٹر کمیشن کی جامع اور واضع رپورٹ پر بھی کچھ نہیں ہوا ۔ نہ کسی ذمیوار کو سزا آئی ، نہ ہی  نظام میں بھتری ۔

یہ تو 2017   تک کے حالات تھے ، مگر اس سندھ واٹر کمیشن میں کافی بی قاعدگیوں کے سامنے آنے اور اربوں روپے ڈوبنے کے بعد بھی کہیں کوئی بہتری نظر نہیں آئی اور ایک مستند اندازے کے مطابق ، 2018 تک ، صوبےبھر میں لگائے گئے ان آراو پلانٹس کی تنصیب کے لئے گزشتہ سالوں میں 40 ارب روپے کے لگ بھگ رقم جاری کی جاچکی ہے۔

اس وقت 2020  میں حالات اور خراب ہیں ، اورتھر میں جو  باقی بچے 400 کے لگ بھگ آراو پلانٹس  کام کر رھے تھے  ان کی اکثریت مکمل ناکارہ ہو چکی ہے ، یہاں تک کے کئی آر او پلانٹس کی سولر پلیٹیں تک چوری ہو چکی ۔ آراو پلانٹس چلانے والے ملازمین کو گذشتہ چھ ماہ سے تنخواہیں نھیں ملی  جس پر وہ آئے دن سراپا احتجاج ہیں ، گذشتہ ماہ جون 2020 میں حکومت سندھ اور پاک اوسس کمپنی کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے ، بچے کھچے ، تباھ حال آراو پلانٹس سندھ پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے انڈر میں ہیں جن کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان ڈہانچوں کا کرنا کیا ہے  کیونکہ ان کی بحالی کے لیئے ایک ارب روپے درکار ہیں ،  پاک اوسس کمپنی ، پانچ سال میں اربوں روپے بنا کر بوریا بستر باندھ کر اور اوپر سے سندھ حکومت کے اوپر قرضہ چڑھا کر تھر سے جا چکی ہے ۔

تھر کو میٹھا پانی دینے کا منصوبہ زیادہ پرانا بھی نہیں ، اس سلسلے میں 2015 میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے تھرپارکر کے ضلعی ہیڈ کوارٹرمٹھی میں جس ، بہت بڑے آر او پلانٹ کا افتتاح کیا تھا اور جس کی روزانہ 20  ہزار گیلن میٹھا پانی پیدا کرنے کی صلاحیت گنجائش بتائی گئی تھی ، وہ آر او پلانٹ دو چار مھینے پانی مھیا کرنے کا ڈرامہ کرکے ، بیکار ہو گیا مگر اس کی مینٹیننس اور دوسرے چارجز سندھ حکومت باقاعدگی سے پاک اوسس کو دیتی رہی ۔

مٹھی کے بعد تھر کے دوسرے بڑے شھر اسلام کوٹ میں  دوسرا بڑا آراو پلانٹ لگایا گیا جس کی روزانہ صلاحیت 15 ہزار گیلن  میٹھا پانی مھیا کرنا تھی ، مگر اس پلانٹ کا حشر بھی مٹھی اور تھر کے دوسرے آر او پلانٹس جیسا رہا ۔ جب تھر کے شھروں کے آراو پلانٹس کی یہ حالت ہے تو تھر کے مزید اندرونی علائقوں میں کیا حالت ہو گی ۔ تھر پار کے سینئر صحافی کھاٹائو جانی کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ اندروں تھر تو آراو پلانٹ لگائے ہی نہیں گئے ، بس کاغذات میں ان کا وجود ہے اور کمپنی مسلسل ان کی مینٹیننس کا بل لیتی رھی ہے ۔

بحرحال   تھر پار کے آر او پلانٹس کی  تازہ ترین صورتحال ، سندھ پبلک ھیلتھ ڈپارٹمنٹ کے انجنیئر جواھر لعل مھیشوری کے   سرکاری موقف کے  مطابق یہ ہے کہ ـ پاک اوسس کمپنی کو 750 کے لگ بھگ آراو پلانٹس تھر میں لگانے کا ٹھیکہ ملا، جس میں سے 556پلانٹس انھوں نے لگائے ، 55 آراو پلانٹس بعد میں مزید لگائے گئے، 98 پلانٹس کی سائیٹ پر صرف تعمیراتی مٹیریل اتارہ گیا ، بقایا 39 پلانٹس کی سائیٹ پر تو مٹیریل بھی نہیں لایا گیا ۔ اس وقت ، 266 آر اوپلانٹس خراب ہونے کی وجہ سے مکمل بند پڑے ہیں ، 79 بڑے پلانٹس ڈیزل کا بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں مجموعی طور پر تین سولر پلیٹس پر چلنے والے آراو پلانٹس کے علاوہ باقی سب بند پڑے ہیں ۔ مھیشوری نے یہ بھی بتایا کہ 750 ملازمیں کو اوسس کمپنی نے گذشتہ چھ ماہ سے تنخواہیں نھیں دی ، ان کے مطابق ٹریزری سے ان ملازمین کی تنخواہ 17  ہزار جاری ہوتی تھی مگر ان کو  11 ہزار ماہانہ دیئے جاتے تھے  اور اب وہ بھی بند ہیں 

پورے سندھ کے اربوں روپے اس میگا کرپشن کی نظر ہو گئے ، کسی نے نہ پوچھا کہ یہ کیا ہوا ۔ تھر اس وقت بھی پیاسا اور اداس ہے ۔

Related Articles

Stay Connected

2,945FansLike
1,120FollowersFollow
8,618FollowersFollow
7,880SubscribersSubscribe

Latest Articles