قبائلی اضلاع میں انتخابات۔ ایک جائزہ۔۔۔۔۔

0
شمس مومند

سب سے پہلے تو اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر اور پھر تمام محب وطن اور امن پسند قبائلی عوام کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد کہ انضمام کے ثمرات کے طور پر سیاسی،سماجی اور معاشی ترقی کی جانب اہم ترین مرحلہ یعنی  قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کیسولہ نشستوں پر انتخابات انتہائی پر امن اور جمہوری انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچ گئے۔ یہ محب وطن اور پر امن قبائلی عوام کی جانب سے ان تمام مخالف قوتوں کے لئے منہ توڑ جواب ہے جنھوں نے کھبی حقوق کے نام پر انہیں اکسانے کی کوشش کی، کھبی نام نہاد آزادی اور روایات کو برقرار رکھنے کے نام پر قبائل کو مزید محروم رکھنے کی سازش کی اور کھبی قبائلستان بنانے کے گمراہ کن نعرے کو خوش کن بناکر انہیں ورغلانے کی کوشش کی۔ مگر آفرین ہو قبائلی عوام پر جنھ.وں نے ایک ہی روز سولہ حلقوں میں انتہائی پر امن انتخابات کو یقینی بناکر یہ ثابت کیا کہ یہ لوگ لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل سے نفرت کرتے ہیں۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اغیار کتنا ہی ان کو سیاست سے الگ تلگ رکھنے کی کوشش کیوں نہ کریں مگر سیاسی شعور ا ور جمہوریت ا ن کے رگ وپے میں رچی بسی ہے اور انھوں نے اب آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کرہی جمہوری جدوجہد کے ذریعے پورے پاکستان کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 ہفتےکو خیبر پختونخوا اسمبلی کے سولہ حلقوں کے لئے سات قبائلی اضلاع میں انتخابات منعقد ہوئےجس میں باجوڑ سے شروع ہونے والے حلقہ پی کے 100سے لیکر فرنٹئیر ریجنز کے حلقہ پی کے ایک سو پندرہ تک شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق وفاق اور صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے پانچ نشستوں  کے ساتھ میدان مار لیا۔ تحریک انصاف کے تمام حلقوں سے نامزد سولہ امیدواروں نے مجموعی طور پر ایک لاکھ بیاسی ہزاراکیس(182021) ووٹ حاصل کئے۔

 تاریخی اور روایتی طور پر اس خطے کی مضبوط سیاسی قوت جمیعت العلمائےاسلام نے تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ان کے تمام نامزد تیرہ امیدواروں نے مجموعی طور پر ایک لاکھ آٹھ ہزار چھ سو اکیاون (108651) ووٹ لئے۔ پشتون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی  اور مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی بمشکل ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کر سکیں۔ جماعت اسلامی کے بارہ امیدواروں نے مجموعی طور پر پچپن ہزار پانچ سو چونسٹھ(55564) جبکہ اے این پی کے نامزد بارہ امیدواروں نے کل سینتالیس ہزار سات سو اکتیس(47731) ووٹ حاصل کئے۔پشتون تحفظ مومنٹ کے حمایت یافتہ پانچ امیدواروں کو مجموعی طور پر انتالیس ہزار اڑتیس(39038) ووٹ ملے۔ پیپلز پارٹی کے بارہ امیدوار صرف پچیس ہزار آٹھ سو دس(25810) جبکہ مسلم لیگ ن کے چار امیدوار صرف سات ہزار دو سو تہتر(7273) ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سب سے زیادہ چھ نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں جس میں ان چھ  آزاد امیدواروں سمیت پچاس آزاد امیدواروں نے مجموعی طور پر دولاکھ نو ہزار چھ سو(209600) ووٹ حاصل کئے۔ جوں ہی نتیجہ سامنے آیا کہ سولہ میں سے چھ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں سازشی عناصر نے سوشل میڈیا پرپروپیگنڈہ شروع کیا کہ یہ سب پشتون تحفظ مومنٹ کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں اس لئے انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ پشتون تحفظ مومنٹ کے حمایت یافتہ صرف ایک آزاد امیدوار میر کلام نے شمالی وزیرستان کے حلقہ  پی کے ایک سو بارہ سے کامیابی حاصل کی ہے۔ پی ٹی ایم  کے حمایت یافتہ دو امیدوار جنوبی وزیرستان کے دونوں حلقوں میں رنرز اپ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔جبکہ مہمندکے حلقہ  پی کے ایک سو چار، خیبر کے دو حلقوں پی کے  ایک سو پانچ اور چھ اور اورکزئی کے حلقہ پی کے ایک سو دس پر کامیاب ہونے والے چاروں افراد سیاسی خانوادے ہیں  ان کا پشتون تحفظ مومنٹ سے  کوئی تعلق نہیں ہے۔ ضلع مہمند سے کامیاب ہونے والے عباس رحمان کے ایک بھائی ہلال رحمان اب بھی سینیٹر ہیں جبکہ ان کے دوسرے بھائی بلال رحمان دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔  اسی طرح ضلع خیبر کے دو حلقوں سے کامیاب ہونے والے دو چچا زاد بھائی شفیق آفریدی اور بلاول آفریدی سابق ممبر قومی اسمبلی اور فاٹا انضمام کے اہم ترین حامی شاہ جی گل آفریدی اور موجودہ سینیٹر  تاج محمد آفریدی کے بھتیجے ہیں اور انہی دونوں کی کوششوں سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اورکزئی کے حلقہ ایک سو دس سے کامیاب ہونے والے غازی غزن جمال میجر جنرل جمالدار کے پوتے اور سابق وفاقی وزیر غازی گلاب جمال المعروف جی جی جمال کےبیٹے ہیں۔ ان چاروں افراد کی بیان کردہ سیاسی حیثیت ایک ٹھوس حقیقت ہے، مگر ان کی کامیابی میں سب سے بڑا کردار پارٹی ٹکٹ تقسیم کرتے وقت خود پی ٹی آئی قیادت نے ادا کیا۔  چار حلقوں، پی کے ایک سو چار، پانچ، چھ اور دس پر پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کو مخالفین کیساتھ ساتھ اپنے ہی پارٹی کے ناراض امیدواروں سے بھی مقابلہ کرنا تھا، جس کی وجہ سے ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم غلط تھی یا صحیح یہ ایک الگ بحث طلب معاملہ ہے لیکن ان کی  بڑی غلطی یہ تھی کہ مرکزی قیادت ناراض کارکنوں کو سمجھانے اورانہیں  آزاد امیدوار بننے سے روکنے میں ناکام رہی۔  پی ٹی آئی کے امیدواروں کی ناکامی کی ایک اور وجہ ملک میں مہنگائی کی شدید لہر بتائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کا نوجوان ورکر اب بھی پارٹی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

جہاں تک باقی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے ہر ایک کو حصہ بقدر جثہ مل چکا ہے۔ جماعت اسلامی کی بد قسمتی تھی کہ ان کے امیدوار یعنی سابق ممبر قومی اسمبلی ہارون رشید اپنی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ورنہ باجوڑ میں جماعت کی تنظیم اور ووٹ بنک سے کسی کو انکار نہیں ہے۔۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے انتہائی محنتی اور نظریاتی امیدوار نثار مومند کی بیس سالہ جدوجہد آخر کار رنگ لے آئی حالانکہ وہ اس سے پہلے تین مرتبہ قومی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ اس مرتبہ بعض قومی ایشوز پر ان کے دلیرانہ موقف اور شب وروز محنت اور پارٹی قیادت کی جانب سے بھرپور تعاون کیوجہ سے ان کو کامیابی نصیب ہوئی۔ دوسری جانب جمیعت العلمائےاسلام نے ثابت کیا کہ ان کا ٹھوس ووٹ بنک ہر حال میں ثابت قدم اور پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہے جہاں پر جے یو آئی کو ہار ہوئی  ہے وہاں ان کا ووٹ بنک پھر بھی برقرار رہا ہے اور ہر جگہ ان کے امیدوار تیسرے یا چوتھے نمبر سے نیچے نہیں گئے ہیں۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو البتہ پورے ملک  کے سیاسی حالات کی طرح یہاں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور یہ دونوں بڑی پارٹیاں کوئی بھی سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ مسلم لیگ ن کی مرکزی یا صوبائی قیادت تو اپنے امیدواروں کو کوئی سیاسی اور اخلاقی سپورٹ دینے میں بھی ناکام رہی کیونکہ ان کی سیاسی قیادت مرکز اور پنجاب میں مشکلات سے دوچار ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھرپور توجہ دینے اور  مہمند، باجوڑ اور وزیرستان  میں تین جلسے کرنے کے باوجود اپنی جماعت کو  سیٹ  دلوانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

انتخابات میں فوج سمیت مقامی انتظامیہ کی غیر جانبداری پر کوئی سوال نہیں اٹھا جس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف مقامات پر فوجی اہلکاروں نے امیدواروں اور ان کے ایجنٹنوں کیساتھ بحث مباحثہ کے باوجود کافی صبر و برداشت سے کام لیا، اور بات کو آگے بڑھانے کی بجائے غیر جانبدار رہ کر ڈیوٹی انجام دی۔اگرچہ چند ایک مقامات سے فافین کے نمائندوں کو پولنگ سٹیشن کے اندر نہ جانے اور  پریذائڈنگ آفیسر کی جانب سے فارم  پینتالیس دینے میں لیت و لعل سے کام لینے کی شکایات موصول ہوئیں ہیں۔ مگر مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ تھےاور امید ہے کہ جس طرح عوام کو اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کرنے کا موقع دیا گیا اس سے جمہوریت اور انتخابات پر عوام کا اعتماد پھر سے بحال ہوگا اور یہ قبائلی اضلاع کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوگا۔