عوام کیا واقعی بے بس بھیڑ بکریاں ہیں ؟

0
عوام کیا واقعی بے بس بھیڑ بکریاں ہیں ؟

:ایک بدنصیب باپ کی کہانی

میں ڈی جی خان کے بزنس فیملی سے تعلق رکهتا ہوں. میں اپنی بیوی کو ڈیلوری کے لیے ڈی جی خان کے سب سے بڑے ہسپتال کیئر سنٹر لے گیا رات ساڑهے نو بجے ڈیلوری ہوئی. ڈاکٹروں نے بچے کو نرسری میں شفٹ کردیا. ساڑهے بارہ بجے بتایا گیا کہ بچے کے پهپهڑے سہی کام نہیں کررہے آپ اسکو ملتان لے جائیں . میں بچے کو لیکر رات دو بجے ملتان سٹی ہسپتال پہنچا انہوں نے بچے کو ایڈمیٹ کرنے سے معذرت کرلی میں ایک اور پرائیوٹ ہسپتال میڈی کیئر پہنچا وہاں بهی سینئر ڈاکٹر کے نہ ہونے کا بہانہ کرکہ میرے بچے کو ایڈمیٹ کرنے سے انکار کیا گیا. میں وہاں سے بهاگ کر سرکاری ہسپتال چلڈرن کمپلکس پہنچا انہوں نے بهی کہا ہاوس فل ہے آپ نشتر ہسپتال چلے جاے یہاں ایک بهی بچہ ایڈمیٹ کرنے کی گنجائش نہیں. میں نشتر کے چلڈرن وارڈ ایمرجنسی میں پہنچا انہوں نے بچہ ایڈمیٹ کرکہ کہا مسئلے کا سالوشن سرونٹا انجیکشن ہے یہ وزن کے حساب سے لگتا هے آپکے بچے کا وزن تین کلو ہے لہذا آپکے بچے کو تین انجیکشن لگے .فی انجیکشن 15 ہزار روپے کا ہے . میں انجیکشن لینے بهاگ گیا جب 45 ہزار روپے کے تین انجیکشن لایا تو ایک اور مصیبت سر پہ آگری۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ انجیکشن وینٹی لیٹر کے بغیر نہیں لگ سکتاـ پنجاب کے تیسرے بڑے شہر اور ایشیاء کے سب سے بڑے ہسپتال میں وینٹی لیٹر نہیں تها. میرے جیب میں چالیس ہزار روپے تهے اور وینٹی لیٹر دهائی لاکه روپے کا تها.. میں نے ڈاکٹر کو کراے پہ وینٹی لیٹر لینے کی تجویذ کی۔ ڈاکٹر نے کہا بهائہ صبح ساڑهے پانچ بجے کون اٹه کر وینٹی لیٹر دے گا. وینٹی لیٹرمیڈی کیئر میں ہے آپ ان سے رابطہ کرکہ یہ گارنٹی دے کہ انجکشن کے دوران اگر بچہ فوت ہوا تو زمہ داری آپکی ہوگی. تو وہ آپکا بچہ ایڈمیٹ کرلے گے۔ میں نے میڈی کیئر رابطہ کیا انہوں نے کہا آپ آجائیں۔ میں ایمبولینس لینے گیا تو ہسپتال نے بچے کو یہ کہہ کر نرسری میں شفٹ کیا کہ ہم بچہ زیادہ دیر ایمرجنسی میں نہیں رکه سکتے.نرسری میں اے سی تو دور پنکهے بهی اتنی بلندی پہ تهے کہ انکی ہوا زمین پہ نهئ پہنچ رہی تهی۔ میں ایمبولینس لینے جارہا تها تو میرا بچہ قریب المرگ تها۔

میری بہن میرے بچے کو مصنوعی سانس دے رہی تهی میں ایمبولنس سے آکسیجن کا سلینڈر نکال کے دوڑتا ہوا وارڈ میں پہنچا تو دیکها میرا بیٹا مر چکا تها۔

میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی سے پوچهنا چاہتا ہوں کہ میں ایک صاحبت ثروت بزنس میں ہوں میں ایک لاه روپے جیب میں ڈال کر گهر سے نکلا تها لیکن میں اپنے بچے کی زندگی نہیں بچا سکا تو ماہانہ دس بیس ہزار کمانے والے انسان کی اولاد کا کیا حال ہوتا ہوگا۔

میں ایک کهٹر مسلم لیگی ہوں۔ لیکن میری ساری مسلم لیگیت اور میاں شہباز شریف کی گڈ گورنیسس ڈهائی لاکه روپے کے ایک سلینڈر نے باہر نکال کر کچہرے میں پهینک دی۔

میں شریف برادران سے پوچهنا چاہتا ہوں۔
پچاس ارب روپے والے میٹرو کے شہر میں ڈهائی لاکه کے وینٹی لیٹر کیوں نہیں ہے؟
اب تک کتنے ننهے پهول مسلے جا چکے ہوں گے؟ ہمارے بچوں کو وینٹی لیٹر میسر نہیں تو کیا ہم میٹرو کا اچار ڈالیں؟
خدارا کرپشن چهپانے کی وجہ سے سڑکیں نہ بنائیں ہسپتال بنائیں۔ ہسپتال والوں کو ایمرجنسی کیسسزز لینے کا پابند بنائیں۔ ورنہ آپ میرے جیسے بدنصیب پاکستانیوں کے بدعا کا شکار ہوجاے گے۔

محمد صارم صابری