نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اہم حلیف پاکستان اج اپنے شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خواہ اور جنوب میں بلوچستان میں شدید انتشار و خلفشار کے ساتھ پراکسی وار کی گرفت میں ہے۔
پاکستان گزشتہ 25 سال سے دو عالمی طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جاری سرد جنگ کے عواقب کا شکار رہا اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد، افغانستان میں برسہار برس تک امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی سے پورے خطہ میں حالت جنگ کی سی کیفیت چھائی رہی۔
ادھر پاکستان کو مشرقی پڑوسی، بھارت اس صورتحال سے پس پردہ بھرپور فائدہ اٹھانے اور پاکستان کو نیچا دکھانے میں سرگرم عمل رہا اور کشمیر میں تجاوز اور تسلط کو تقویت دیتا رہا جو اقوام متحدہ کی قرارداروں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
ہم خود بھی پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور قانون کی حکمرانی کی دہائی دیتے ہیں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں جاری جانی و مالی کرب میں مبتلا ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عالمی برادری پاکستان اور افغانستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا طعنہ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
بھارت بھی یہی راگل الاپتا ہے جبکہ وہاں دائیں بازو کی بی جے پی اور اس کے سخت گیر اتحادی شیوسینا اور آر ایس آر بھارت کی قومی اور چند صوبائی پارلیمانوں میں بالادستی حاصل ہے جبکہ مذہبی سیاسی یا اقلیتی جماعتیں 10 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکنے کے باعث قومی اور صوبائی معاملات میں نمائندگی کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
بھارت جہاں سو سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں اور جہاں کبھی مختلف مذاہب کو رچنے بسنے کی ازادی تھی اور تہذیب و تمدن کا گڑھ تھا آج کیوں ایک ایسی راہ پر چل نکلا ہے جو ایک معتصبانہ فکر اور مخاصمانہ طرز عمل کو فروغ دے رہی ہے۔
آج ہم نفرت اور بغض و عناد کی ان دیواروں کے اندر جھانکنے کی کوشش کریں گے۔ ہمارے سامنے تقریبا دو سال پہلے انڈیا ٹوڈے میں ششی تہرور کا شائع شدہ ایک مضمون ٹاکسن اف ہیٹس ہے یعنی `زہر الود نفرتیں`۔
ائیے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں
2024
میں بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں ایا ہے اور 59 فکر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں۔ یوں 2023 میں 32 ایسے افسادات کے مقابلے میں جو 84 فیصد اضافہ ہوا ہے جن کے نتیجہ میں 13 اموات ہوئی۔ 10 مسلمان اور تین ہندو۔ مہاراشٹر میں 12 اتر پردیش میں سات واقعات رپورٹ ہوئے اور دیگر ریاستیں بھی متاثر ہوئیں۔
ہجوم کی پر تشدد مارپیٹ کے 12 افسوسناک واقعات 10 اموات ہوئیں آٹھ مسلمان ایک ہندو اور ایک عیسائی۔
بھارت میں فرقہ وارانہ تصادم اور تشدد کوئی نئی بات نہیں مگر تقسیم کے بعد یہ واقعات شدت اختیار کرتے چلے گئے جس کی بنیادی وجہ عدم برداشت اور عدم ضبط و تحمل ہے۔
اسے برسر اقتدار جماعتوں نے سیاسی اہداف حاصل کرنے اور رائے دہندگان کو بہکانے یا بھڑکانے کے لیے بخوبی استعمال کیا۔
اقلیتی ووٹ کا استحصال اور مذہب کارڈ کا کھیل ہر جماعت نے کھیلا جس کی وجہ سے بنیاد پرستی کو تقویت اور فروغ ملا اور سیاسی منظر عامہ آلودہ ہوا۔
بی جے پی رہنما اور اس جماعت سے وابست افراد کے انتخابات کے دوران غیر ذمہ دارانہ رویہ اور بیانات کی کشیدگی میں اضافہ کا سبب بنے مگر وزیر اعظم نریندر مودی تشدد، نفرت انگیز جرائم اور اشتعال انگیز بیان بازی پر چپ سادھے رہے۔
ناقدین کا استقدلال ہے کہ ان افسوسناک واقعات کی فوری مذمت سے تجاہل اور خاموشی دراصل اس کی ہمنوائی اور پذیرائی ہے۔ مثلا 2015 میں ایک شخص محمد اخلاق پر گائے کا گوشت کھانے کی وجہ سے انتہائی تشدد پرغیر معمولی تاخیر اور فرقہ فرقہ وارانہ ہم اہنگی پر مبہم تبصرے، ان کی منفی سوچ کے غماز ہیں
انتخابی مہم کے دوران مودی اور بی جے پی رہنماؤں نے مسلمانوں کو قومی اتحاد اور ہندو ثقافت کے لیے ایک خطرہ قرار دیا۔ اپریل 2024 کی ایک انتخابی مہم کے دوران مودی نے کہا مغربی بنگال میں در اندازوں کو بھیج دیا جانا چاہیے جن سے مراد بنگلہ دیش مسلمان ہو سکتے ہیں۔
سبرامینیم سوامی
ایسے بیان جو یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان `حملہ آور` ہیں یا عیسائی مشنری ,`تبدیلی کی سازشوں` میں ملوث ہیں۔ تناؤ کو ہوا دی ہے۔
در اندازی کرنے والوں،` `زیادہ بچے پیدا کرنے والے` یا `ووٹ بینک کی سیاست` کے حوالے سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
گائے کے تحفظ اور `لو جہاد` جھنڈے تلے ایک سازشی نظریہ جس میں مسلمان مردوں پر ہندو عورتوں کو بہکانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف جرائم سے صرف نظر کرنے یا ناکافی تفتیش کے الزامات۔ خاص طور پر مسلمانوں کو روزگار رہائش اور تعلیم جیسی سہولتوں میں نظر انداز کرنا۔ سرکاری ملازمتوں اور اعلی تعلیم میں غیر متناسب نمائندگی۔
اپریل 2020 میں بی جے پی کے رکن پارلیمان سبرا مینیم سے ہندوستان کے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے الزام لگایا کہ ہم جانتے ہیں کہ جہاں مسلم آبادی زیادہ ہے وہاں ہمیشہ پریشانی ہوتی ہے ۔
اگر مسلم ابادی کسی بھی ملک میں 30 فیصد سے زیادہ ہو جائے وہ ملک خطرے میں ہے۔
انہیں جب یاد دلایا گیا کہ ائین کا ارٹیکل 14 ہندوستان میں سب کے لیے مساوی حقوق کو یقینی بناتا ہے تو انہوں نے اسے آئین کی غلط تشریح قرار دیتے ہوئے کہا قانون مساوی افراد کے لیے مساوی حقوق کو یقینی بناتا ہے۔ جسے اپ ایک من مانی تشریح کہہ سکتے ہیں یا یہ کہنا کہ تمام لوگ برابر نہیں ہیں۔ مسلمان برابری کے زمرے میں نہیں اتے۔ یہ بغض و عناد اور شر انگیزی ہے جس پر مسلمان احتجاج کریں وہ گردن زدنی گردانیں جاتے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی فرقہ وارانہ گفتگو سے گریز کرتے ہیں مگر پرتشدد کاروائیوں اور نفرت انگیز تقاریر کی مذمت یا حوصلہ شکنی نہیں کرتے لہذا ہدف تنقید بنتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں جیسے ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم اور انتقامی کاروائیوں اور ہجومی تشدد کی اطلاع دی ہے خاص طور پر `گائے کے تحفظ` اور `لو جہاد` کے جھنڈے تلے مسلمان مردوں پر ہندو عورتوں کا بہکانے کا الزام ہے۔
مسیحی برادریوں کو گرجا گھروں اور دعائیہ اجتماعات پر بڑھتے ہوئے حملوں کا سامنا ہے۔ اکثر زبردستی تبدیلی کے الزامات کے تحت مذہبی اقلیتوں کو امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یونائٹڈ کرسچن فرنٹ نے 2024 میں عیسائیوں کے خلاف 834 پرتشدد واقعات کی اطلاع دی ہے جو 2023 کے مقابلے میں 100 فیصد زیادہ ہے۔
ائیے! ششی تحرور کے دو اپریل 2022 کے تین سالہ پرانے مضمون کی طرف چلتے ہیں؛،
ایڈیٹر پوچھتا ہے : کیا تقسیم گہری ہوئی ہے؟
فرقہ وارانہ فسادات، ہجومی تشدد اور گائے کی حفاظت نے ہمارے معاشرے کو نقصان پہنچایا ہے
حجاب اور لواحقین پر پیدا ہونے والے تنازعات ملک کی مسلم اقلیت کو پسماندہ رکھنا وغیرہ۔ اس کے بجائے میں اپ کو تین بظاہر معمولی کہانیوں کے بارے میں بتانا چاہوں گا جو حال ہی میں مجھے سننے کو ملی اور تقسیم کی وجوہات مجھ پر منکشف ہو گئی۔
پہلی کہانی: جے پور میں میری ملاقات سنہرے بالوں والی ایک لڑکی سے ہوئی جو ایک سال سے دستکاری زیورات کے سلسلے میں ہندوستان آرہی ہے اور ایک غیر ملکی کے طور پر اس کا پر تباک استقبال ہوتا رہا ہے اس کا نام نور ہے اور جب وہ اپنا تعارف کرواتی تو کہا جاتا کہ کتنا پیارا نام ہے۔ ہندوستان میں اس کا مطلب روشنی ہے مگر اب ماحول بدل یہ گیا ہے اور جب وہ اپنا نام بتاتی ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تم مسلمان ہو۔ `اوہو` لہجہ اور سوال اسود ایک رد عمل ہے۔ اور اب نور پہلے کی طرح یہاں انا نہیں جاتی
دوسری کہانی: ایک سابق ہندوستانی سفیر کی زبانی۔
کابل کے ایک نامور سرجن سے متعلق ہے وہ اپنے ملک میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے دل برداشتہ ہیں اور سفیر کے مشورے پر اپنے بچوں کو سکونت اور تعلیم کے لیے ہندوستان (پاکستان نہیں) بھیجتے ہیں تاکہ وہ اسلامی بنیاد پرستی سے محفوظ رہیں.
وہ گڑگاؤں میں ایک اپارٹمنٹ کرایہ پر لیتے ہیں اور بچوں کا ایک اچھے سکول میں داخلہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک سال کے اندر انہیں احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ ہندوستان نہیں۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ دھچکہ، انہیں اس وقت لگتا ہے جب ان کی بلڈنگ میں ان کے بچوں کے ساتھ کھیلنے والوں نے یہ اعلان کیا `ہمارے والدین نے ہمیں اپ کے ساتھ کھیلنے سے منع کر دیا ہے کیونکہ اپ مسلمان ہیں`
میرے سفیر دوست نے صدمہ اور مایوسی کے عالم میں سر جن سے کہا کہ اپنے بچوں کو دبئی یا لندن لے جاؤ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے اپ کو اپنے ملک کے بارے میں مشورہ دیا تھا ۔
تیسری کہانی: اقوام متحدہ میں ایک تجربہ کار ایک ہندوستانی مذاکرات کار جس نے مشرق وسطیٰ میں بہت مشکل سے مقامات میں فرائض انجام دیے
ان کی ملاقات ایک سخت گیر داڑھی اور پگڑی والے کلاشنکوف برادر مسلمان سے ہوئی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اقوام متحدہ کے اس شخص کو سگریٹ پیش کی گئی اور ہنسی مذاق میں بات آئی گئی ہوگی۔ باتوں بعد میں اتفاق سے پوچھا گیا کہ تم کہاں سے ہو۔
ہمارے اہلکار نے جواب دیا انڈیا تو اس شخص کا رویہ بدل گیا اس نے کہا بھارت؟ میں نے سنا ہے کہ تم وہاں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو! فوراً چلے جاو یہاں سے، اقوام متحدہ کے ادمی ورنہ تمہارے ساتھ جو ہوگا میں اس کا زمہ دار نہیں ہوگا۔
اس اہلکار نے عسکریت پسند کو منانے کی کوشش بھی کی مگر وہ رام نہ ہوا۔
مندرجہ بالا واقعات جو تین ہفتوں کے دوران میرے علم میں آئے ہمارے معاشرے میں گہری فرقہ وارانہ تضاد اور تفریق کی عکاسی کرتے ہیں۔
فرقہ واریت کا یہ زہر محض سیاسی مقاصد اور مخصوص انتخابی فوائد کے لیے ہماری سیاست میں داخل کیا گیا ہے۔ جس کا نقصان ہمارے معاشرے کو پہنچ رہا ہے اور جس نے ہندوستان کو بدل کر رکھ دیا ہے اب وہ باتیں جو ماضی میں کمرے میں دیواروں کے پیچھے کہنا بھی مناسب سمجھی نہیں جاتی اب سرعام کہیں جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ وسیع پیمانے پر تقسیم کی جا رہی ہے۔
ایک وقت تھا کہ جب ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں م فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یکجہتی کی کوشش کرتی رہتی تھیں، چاہے معمولی کیوں نہ ہو۔ اب اکثریتی جماعت جو دل چاہے کرے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
میں ایک ایسے ہندوستان پلا بڑا ہوں جہاں گنگا جمنی تہذیب کا دور دورہ تھا۔ قومی یکجہتی محض نعرہ نہیں تھا اس پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔
اج قوم پرستی کو اکثریت پسندی کی مساوی سمجھا جاتا ہے اور انضمام کا مطلب غالب برادری کے بیانیہ کو من و عن تسلیم کرنا ہے۔
میرے بچپن میں امر، اکبر، انتھونی جیسی فلموں پر تفریحی ٹیکس معاف کر دیا جاتا تھا۔ بچپن میں بھی چھٹ جانے والے تین بچے جو ہندو، مسلم عیسائی کے طور پر پرورش پاتے ہیں، اخر میں بڑے لوگوں کو شکست دینے کے لیے متحد ہو جاتے ہیں۔ آج کشمیر فائلز جیسی فلم پر چھوٹ دی گئی ہے جس کی نمائش مسلمانوں کے خلاف انتقام کی سرپرستی پر ختم ہوتی ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کے ساتھ پوری مسلم دنیا عزت و احترام کے ساتھ پیش اتی ہے۔ اج ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم، اسلام و فوبیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ غیر ملکیوں کو فخر کے ساتھ یہ بتاتے تھے کہ ہندوستانی 180 ملین ہونے کے باوجود صرف چند ہندوستانی مسلمان طالبان، القاعدہ یا داعش میں شامل ہوئے تھے کیونکہ ہندوستانی مسلمانوں کا ہندوستان سے تعلق اور اس کی کامیابی شرکت کا احساس پختہ تھا۔
آج بات بگڑ چکی ہے اور ایک خوفزدہ و تنہائی کی ماری اقلیت سے تعلق رکھنے والے مسلمان جن کے پاس اختیار ہے، ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کر رہے ہیں جبکہ دوسروں کو بنیاد پرستی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ اسلام پسند تبلیغات سے نہیں، ہندوستان میں اپنے تجربات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ انٹیلیجنس افسران یہ سمجھ رہے ہیں کہ انتہا پسندی بڑھ رہی ہے
فرقہ وارانہ تقسیم صرف گہری ہی نہیں، اس نے معاشرے کو زہر آلود کر دیا ہے اور ہم سب کو ابتری کے خدشات لاحق ہیں۔ یکجہتی کا عہد تمام ہوا۔